نو منتخب صدر جمہوریہ محترمہ دروپدی مرمر سے غریبوں کی توقعات

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 22ND July

آصف تنویر تیمی

ہندوستان کے پندرہویں صدر جمہوریہ کے لئے جمہوری نظام کے مطابق محترم دروپدی مرمر منتخب ہوچکی ہیں،26 جولائی کوان کی حلف برداری بھی ہوجائے گی۔ان کی جیت سے حزب موافق اور حزب مخالف سب کو خوشی ہے۔اور ہونی بھی چاہئے اس لئے کہ لوگوں نے ان پر اعتماد کیا ہے۔اور بہت کچھ سوچ کر ان کے حق میں ووٹ ڈالا ہے۔ان کی جیت بھی تاریخی ہے۔توقع سے زیادہ انہوں نے ووٹ حاصل کیا ہے۔ملک کے وزیر اعظم سمیت تمام بڑی سیاسی شخصیات نے ان کو جیت کی مبارک باد پیش کی ہے۔حلف برداری سے پہلے اور بعد میں بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ملک کے ایک شہری ہونے اور جمہوریت پر یقین رکھنے کی وجہ سے میں بھی نو منتخب صدر جمہوریہ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔اور امید کرتا ہوں کہ آنے والے پانچ سالوں میں وہ ملک کے عام لوگوں بالخصوص غریبوں کے حق میں بلا کسی تعصب اور تنگ نظری کے مضبوط فیصلے لیں گی۔
ویسے تو ملک کا ایک ایک شہری محترمہ مرمر سے نیک توقع رکھتا ہے۔جس طرح ایک گھر میں رہنے والے چند افراد اپنے سرپرست سے امید کرتے ہیں کہ وہ ان کے لئے بہتر سوچے گا اور ترقی کی اونچائی تک لے جائے گا۔بعینہ ہم ہندوستان کے شہری محترمہ سے امید کرتے ہیں کہ وہ ملک کو نئی اڑان دینے کی راہ میں ہر ممکن کوشش کریں گی۔انہوں نے ماضی کے سالوں میں اپنی سیاسی اور سماجی زندگی سے جو کچھ سیکھا اور سمجھا ہے اس کو اب ملکی سطح پر لاگو کرنے اور کرانے کی جتن کریں گی۔
ملک کے دبے کچلے اور غریب لوگ ان سے اس بات کے خواہاں ہیں کہ وہ ان کا خیال رکھیں گی۔قومی طور پر کچھ ایسی اسکیمیں لائیں گی جس سے غربت کا گراف کم ہو۔سب کو روٹی کپڑا اور مکان میسر آئے۔وہ لوگ جو ایک زمانے سے خانہ بدوشی،جنگلی اور پہاڑی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اب ان کو قرار نصیب ہوگا۔ان کی اقتصادی اور سماجی حالت بہتر ہوگی۔سب کو روزگار ملیں گے۔قبائلی لوگ بھی عام لوگوں کے بچوں کی طرف اسکول،کالج اور یونیورسٹی کا رخ کریں گے۔ان کے ساتھ کسی طرح کا بھید بھاؤ برتا نہیں جائے گا۔ان کو سرکاری ملازمتیں بھی ملیں گی۔کرپشن،رشوت اور رنگ ونسل کا امتیاز دور ہوگا۔اس وقت اڑیسہ،جارکھنڈ سمیت جنوب کے بہت سارے شہروں میں قبائلی آباد ہیں ان کی فہرست سازی کرکے ان میں سے جو ضرورت مند اور خطہ افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ان کو افلاس سے باہر لانے کی تمام تر کوشش کی جائے گی۔یقینا جو نچلی سطح سے اوپر آتا ہے وہ اپنے دکھ درد کی طرح دوسروں کے دکھ درد کو بھی سمجھتا اور اس کو بانٹنے کی سعی کرتا ہے۔محترمہ مرمر نے غربت کو نزدیک سے دیکھا اور سہا ہے اس لئے ہم توقع کرتے ہیں کہ وہ اس چیز کو محسوس کریں گی۔ہندوستان ایک کثیر المذاہب ملک ہے۔اس ملک میں ہر مذہب کے ماننے والے لوگ رہتے ہیں اور ان کی تاریخ کوئی نئی نہیں بلکہ جتنا قدیم ہندوستان ہے اتنی ہی قدیم تاریخ، ہندوستانیوں کی بھی ہے۔اسی وجہ سے ہندوستان میں بسنے والے ہر مذہب کے لوگوں کو ہندوستانی بھی کہا جاتا ہے۔اس ملک کو آزاد کرانے میں بھی ہر ہندوستانی کا اہم کردار رہا ہے۔میرے خیال میں اگر ہندوستان کو آزاد کرانے میں ہندوستانیوں نے اپنے آپ کو مذہب کے نام پر تقسیم کیا ہوتا تو آج تک ہم غلامی کا درد برداشت کررہے ہوتے۔تو جس طرح اس وقت ہم ہندو مسلمان سکھ عیسائی ہونے کے باوجود ہندوستانی تھی اسی طرح آج بھی ایک اچھے اور سچے مذہبی ہوتے ہوئے ایک سچے اور مخلص ہندوستانی ہونے کی ضرورت ہے۔برا ہو ان سیاسی پارٹیوں کا جو مذہبی سیاست کرتیں اور ہم ہندوستانیوں کو بانٹ کر ہندوستان کو کمزور کرنا چاہتی ہیں۔اس ہندوستان کے غریبوں اور اقلیتوں کی پوری توقع ہے کہ محترمہ دروپدی آنے والے دنوں میں ملک کی سیاست کے بدلاؤ میں اپنا قائدانہ رول اداکریں گی۔ ان کی تقریریں عام ہندوستانیوں کے ساتھ غریبوں کے لئے خوشیوں کی نوید ثابت ہوں گی۔ وہ ہر سیاسی مسئلہ پر باریکی سے غور کریں گی پھر اس پر اپنی کوئی رائے دیں گی۔ اگر حق اور سچ کے لئے انہیں صاحب اقتدار پارٹی کی بھی سننی پڑے وہ اس کو برداشت کرتے ہوئے حق کا ساتھ دیں گی۔اس وقت ہندوستان میں نفرت کا بول بالا ہے۔ آپسی محبت اور بھائی چارہ تقریبا ختم ہوگیا ہے۔ آئے دن ایسے بیانات اور واقعات اخبارات میں نشر ہوتے ہیں کہ ہر سچے ہندوستانی کا دل پارہ پارہ ہوجاتا ہے۔
وہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ آخر ہمارے ملک میں اتنی نفرت اور دشمنی کیوں ہے۔ کیا ایسی صورت میں ہمارا ملک ترقی کے منارہ تک پہنچ سکتا ہے۔ کیا ہم نہرو،گاندھی،ڈاکٹر راجندر پرشاد،مولانا ابو الکلام آزاد، ڈاکٹر ذاکر حسین، بھیم راؤ امبیڈگر، اے پی جے عبدالکلام کے خوابوں کو پورا کرسکتے ہیں۔مجھے امید ہے کہ محترمہ مرمر ان باتوں کو سمجھنے اور ان کو اپنی عملی زندگی میں داخل کرنے اور اسی نکتہ نظر سے ہندوستانیوں کو دیکھنے کی کوشش کریں گی۔ وہ اپنے آنے والے پانچ سالہ کارناموں سے ہندوستان کو نئی سمت اور نئی اڑان دینے کی جدوجہد کریں گی۔