Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 10th Aug
حال ہی میں حیدرآباد پولیس نے ایک ایسے شخص کو گرفتار کیا ہے جو سم کارڈ خریدنے اور بینک اکاؤنٹ کھولنے کے لئے الگ الگ لوگوں کے تقریباً دو ہزار فنگر پرنٹس یا انگلی، انگوٹھوں کے نشان کا استعمال کر رہا تھا۔ وہ اسی طرح کی اور بھی دھوکہ دہی کا منصوبہ بنا رہا تھا تبھی پولیس کے ہاتھ لگ گیا۔اِن دنوں صرف پولیس اور یو آئی ڈی اے آئی ہی بائیومیٹرک کی جانچ یا استعمال نہیں کرتے۔ چھوٹی عوامی یا نجی کمپنیاں بھی اسے اپنی حاضری کے لئے استعمال کرنے لگی ہیں۔ مختلف ایرپورٹس اور کچھ شہروں کی میٹرو ٹرین میں بھی چہرے کی شناخت والے پاس چل نکلے ہیں۔ دفاتر یا اپارٹنمنٹ میں بایومیٹرک شناخت کی بنیاد پر ہی داخلہ ملتا ہے۔
یہ سب تو ٹھیک ہے، لیکن اس کے ساتھ ڈیٹا تحفظ کا مضبوط نظام ضروری ہے۔ ہندوستان نے ڈیجیٹل معیشت بڑے پیمانے پر اختیار کر لی ہے، لیکن اس تناسب میں ڈاٹا تحفظ انتظام نہیں ہے۔ ڈھیر سارا شخصی ڈاٹا مسلسل حاصل کیا جاتا ہے، لیکن اسے لیکر صورت حال واضح نہیں ہے کہ اسے کیسے اسٹور و استعمال کیا جائے گا اور اس تک کسی کی کتنی رسائی ہوگی۔ ان سب سے جڑے جرائم پر بھی سزا کم ہے۔ کسی اور کے آدھار کارڈ کے بیجا استعمال یا فرضی شناخت بتانے والے کو تین سال کی قید یا دس ہزار روپئے جرمانے کی سزا ہے۔ لیکن ایسے معاملے میں بہت کم ملزم پکڑے جاتے ہیں۔
یوآئی ڈی اے آئی نے آدھار کارڈ کی زیراکس یا ای کا پی کے بیجا استعمال پر وارننگ دی تھی لیکن پھر واپس لے لی۔ اب اگر حفاظتی اقدامات کو اختیار کرنا ہے تو زیادہ چوکسی برتنی ہوگی۔ پارلیمنٹ کو بھی وسیع ڈاٹا اصلاحات پر قانون سازی کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ سائبر دھوکہ دہی کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں اور تعلیم یافتہ لوگ بھی جھانسے میں آجاتے ہیں۔ شخصی معلومات اب شاید ہی محفوظ رہ گئی ہیں۔ موبائل اور لیپ ٹاپ کا استعمال کرنے والوں پر بھی یہ خطرہ منڈلا رہا ہے۔
اس کے علاوہ ملک میں ایسے گروہ سرگرم ہیں جو مختلف بہانوں سے بینک صارفین کے اکاؤنٹ کی معلومات حاصل کرکے ان کی جمع رقم پر ہاتھ صاف کر دیتے ہیں اور اس قسم کے فراڈ سے ناواقف لوگ ان کا آسانی سے شکار بن جاتے ہیں۔ حالانکہ اس بارے میں لوگوں کو مسلسل آگاہی دی جاتی ہے۔ میڈیا کے ذریعہ بار بار ٹھگنے کے طریقوں سے بھی انہیں واقف کرایا جاتا ہے پھر بھی جعل ساز کامیاب ہوجاتے ہیں۔