احتجاجی عورتوں پر طالبان نے لاٹھیاں برسائیں اور ہوائی میں فائرنگ کی

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 14th Aug

کابل،14اگست: طالبان حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پرتعلیم یافتہ افغان خواتین نے کل وزارت تعلیم کے باہر مظاہرہ کیا ۔ لیکن طالبان اہلکاروں نے نہ صرف لاٹھیا ںبرسائیں اور ان کو تتربتر کرنے کے لئے ہوا میں فائرنگ بھی کی ۔ مظاہرین خواتین اپنے ہاتھوں میں بینراٹھائے ہوئے اور جس میں وہ حکومت سے مطالبہ کررہی تھیں کہ انہیں کام کرنے کی اجازت دی جائے۔ اور ا ن کے آواز کو نہیں دبانا چاہئے ۔اور وہ وزارت تعلیم کے دفتر کے قریب پہنچ گئیں۔ طالبان کے اہلکاروں نے ان پرلاٹھیاں برسائیں اور ہوامیں فائرنگ بھی کی۔ تا کہ وہ وہاں سے بھاگ جائیں۔ طالبان عورتیں کی مانگ ہے کہ انہیںنہ صرف تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی جائے اور ان کی ملازمت پرسے پابندی ہٹائی جائے۔ احتجاج کے دوران کچھ عورتوں نے دکانو ںمیں پناہ لی لیکن طالبان کے سیکورٹی اہلکاروں نے ان دکانو ںکے اندر گئے او ران کو مارا پیٹا ۔ مظاہرین نے کہا کہ 15اگست جس دن طالبان کے افغانستان پر قبضہ کیا وہ ان کے لئے یوم سیاہ دن ہے۔ اور طالبانی حکومت نے ان پر طرح طرح کی پابندیاں لگائیں ۔ عورتوں کی ایک ترجمان محترمہ منشیا نے کہا کہ طالبان کو یہ خیال ہے کہ وہ طاقت کے بل بوتے پر ہماری آواز دبائے گی تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جو صحافی اس ریلی کی رپورٹنگ کرنے گئے تھے ان کو بھی پیٹا گیا ۔ پچھلے ایک سال سے صرف عورتوں کے حقوق پامال کردیء گئے اور اس کے علاوہ لڑکیوں کو اسکول جانے پر پابندی لگائی گئی ہے۔خواتین کی جانب سے یہ احتجاج ایسے موقع پر کیا جا رہا تھاجب افغانستان میں طالبان کے اقتدار کو ایک برس ہونے کو ہے۔ 15 اگست 2021 کو طالبان نے کابل پر قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد 31 اگست تک امریکہ سمیت تمام غیر ملکی افواج کا افغانستان سے انخلا مکمل ہوا تھا۔ریلی کے شرکا کابل میں وزارتِ تعلیم کی جانب مارچ کر رہے تھے۔ مظاہرین ”ہمیں کام، روٹی اور آزادی چاہیے” کے نعرے لگا رہے تھے۔ اس دوران طالبان نے حکومت مخالف اس ریلی کو روکنے کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ریلی کے شرکا کام کا حق اور سیاسی نمائندگی کے مطالبات کے ساتھ ساتھ ”انصاف، انصاف” کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔ مظاہرین نے بینرز بھی تھامے ہوئے تھے جن پر ”15 اگست یومِ سیاہ ہے” درج تھا۔سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور عینی شاہدین کی جانب سے شیئر کردہ ریلی کی فوٹیجز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اکثر خواتین نے اپنے چہرے کو نہیں ڈھانپا ہوا تھا۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ کچھ خواتین مظاہرین جنہوں نے قریبی دکانوں میں پناہ لی تھی ان کا پیچھا کیا گیا اور سیکیورٹی فورسز نے ان پر رائفل کے بٹوں سے تشدد کیا۔سوشل میڈیا پر ریلی کی ایک ویڈیو میں شدید فائرنگ سنی جاسکتی ہے جس میں طالبان اہلکار خواتین مظاہرین پر تشدد کر رہے ہیں جب کہ افغان صحافیوں کو بھی ریلی کی کوریج سے پرتشدد طریقے سے روکا جا رہا ہے۔ادھر انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پرامن احتجاج کرنے والی خواتین کو منتشر کرنے کے لیے طالبان کی جانب سے مبینہ طور پر ”طاقت کے بے دریغ” استعمال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔دوسری جانب طالبان حکام نے ان الزامات پر فوری طور پر کوئی ردِعمل نہیں دیا ہے۔خیال رہے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد کابل میں طالبان نے تمام افغان شہروں کے حقوق کے تحفظ کے خواتین کے کام اور تعلیم کے حقوق کو ختم کردیا ہے جب کہ سیکنڈری اسکول میں لڑکیوں کی تعلیم پر بھی پابندی لگادی ہے۔نجی شعبے کے لیے کام کرنے والی خواتین ملازمین کو گھر پر رہنے کا کہہ دیا گیا ہے۔ صرف تعلیم، صحت اور دیگر کچھ وزاتوں میں خواتین کو کام کی اجازت ہے۔ اس کے علاوہ عوامی مقامات پر انہیں اپنا چہرہ ڈھانپنے کا حکم دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ خواتین پر پابندی عائد ہے کہ وہ کوئی بھی طویل سفر کسی مرد محرم کے بغیر نہیں کر سکتیں۔طالبان اپنی ان پالیسیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ افغان ثقافت اور شریعت یا اسلامی قانون کے مطابق ہیں۔