اُردو کی بقاکیلئے عمل ضروری

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 7th Aug

کسی بھی زبان کی شناخت میں اُس کے رسم الخط کا اہم رول ہوتا ہے ۔ اہل سیاست اور عالمی منڈی کے ذمہ دار بھی ، اس حقیقت کو سمجھنے لگے ہیں کہ اردو کا دائرہ سکڑرہا ہے اور اِس زبان کا دم بھرنے والے خود اِس سے اعراض کرنے لگے ہیں ، ورنہ کیا وجہ ہے کہ ہندوستانی زبان میں فروخت ہونے والی مصنوعات پر انگریزی سے زیادہ اور انگریزی سے پہلے ہندی میں نام اور اس کے خواص درج ہونے لگے ہیں اور سوائے ہمدرد کے کوئی اردو کو اپنی مصنوعات کی تشہیر میں نمائندگی دینے پر تیار نہیں ہے۔
اس تلخ نوائی کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ اہل اردو اپنی زبان کو بچانے کے لئے زبانی جمع خرچ کے حصار سے باہر آئیں اور ایثار وجدوجہد کے لئے خودکو تیار کریں، اس کے بعد حکومت سے توقع کرنا بجا ہوگا، ایک اور بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ ہندوستان میں اردو کے مستقبل کا انحصار دوسرے ملکوں میں اُس کی ترقی یا نئی بستیاں بسانے پر نہیں ہے نہ ہی اِس بات پر ہے کہ الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا، ہندی فلموں کے نغمے، مکالمے ، ڈرامے، یا ہندی شاعری میں اردو الفاظ کا استعمال بڑھ رہا ہے، اردو کی بقاء کا انحصار صرف اِس پر ہے کہ اردو زبان سے متعلق کتنے فیصد بچوں کو اسکولوں میں اردو سیکھنے اور پرائمری درجوں میں ذریعہ تعلیم کے بطور اردو اپنانے میں دلچسپی اور مواقع حاصل ہیں، کچھ حد تک آندھرا، مہاراشٹر، بہار اور کشمیر کی صورت حال گوارہ ہے ، باقی ہر ریاست میں اردو پڑھنے والوں کے تناسب میں تیزی سے کمی ہورہی ہے اور سال بہ سال اِسی طرح دن بدن اردو تعلیم کی سہولتیں گھٹتی جارہی ہیں، یہاں تک کہ اردو پڑھنے پڑھانے کے لئے مطالبات میں بھی کمی آرہی ہے،پچھلے دو پارلیمانی الیکشن آزادی کے بعد ایسے الیکشن تھے جس میں اردو زبان کو یکسرنظر انداز کردیا گیا، کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اِس حقیقت کو اجاگر کرتا کہ بہار کے سوا اردو کو ہر ریاست میں خواہ وہ اترپردیش ہو یا مدھیہ پردیش، راجستھان ہو یا دہلی اسکولوں کے نصاب سے باہر کردیا گیا ہے، جب تک یہ صورت حال تبدیل نہیں ہوتی اردو کے اچھے دن لوٹ آنا ناممکن نہیں تو محال ضرور ہے، آج دو تین کام ترجیحی بنیاد پر کرنے کی شدید ضرورت ہے اول اسکولوں میں اردو کی تعلیم کا بہتر سے بہتر انتظام ہو، دوم اردو کی ترقی کیلئے فضا ہموار کی جائے، اس زبان کے بارے میں جو جذبات وتعصبات پچھلے ۷۵ برس میں اہلِ وطن کے ذہن میں گھر کرچکے ہیں، انہیں دور کرنے کی صدق دلی سے کوشش کی جائے، خاص طور پر نئی نسل کویہ بتایا جائے کہ اردو زبان کا ملک کی تقسیم یا پاکستان کے قیام سے کوئی تعلق نہیں، یہ پاکستان میں نہیں ہندوستان کے اُن علاقوں میں پھلی اور پھولی ہے جس کو شمالی ہند کہا جاتا ہے اور اِس کا تمام تر ادبی سرمایہ ہندوستان کی مٹی میں رچا بسا ہے اور یہ ہندوستان کے مسلمانوں کی نہیں ، عام ہندوستانیوں کی ز بان ہے۔ اس کا ایک قومی کردار ہے، جس نے ہمیشہ جوڑنے کا کام کیا توڑنا یا نفاق پیدا کرنا، اِس کی سرشت میں داخل نہیں، اس زبان نے اپنی شیرینی وحلاوت سے ہر ایک کو گرویدہ کیا ہے اور اپنے جوش وخروش سے جہادآزادی میں سب کے دل کو گرمایا ہے، آزادی کی قدر وقیمت کا احساس دلایا ہے، آج بھی اردو علاحدگی پسند اور انتشار پھیلانے والی طاقتوں سے جنگ لڑنے میں تیز دھار کے ہتھیار کا کام کرسکتی ہے کیونکہ اس میں گنگا جمنی تہذیب وشائستگی کی جو گھلاوٹ ہے، وہ تخریب وفساد کے علمبرداروں کو رام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، یہ زبان شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک سبھی علاقوں میںبولی اور سمجھی جاتی ہے ، لہذا شیطانی طاقتوں کا مقابلہ کرنے میں ، یہ دوسری زبانوں سے زیادہ معاون ثابت ہوسکتی ہے