جب 09 اگست 1942کو صبح سے ہی گاندھی جی سمیت کانگریس کے بڑے لیڈروں کی گرفتاریاں شروع ہوئی

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 8th Aug

مدھو کر تر ویدی

انگریزی راج کے خلاف غدر اور آزادی کی لڑائی میں دو تاریخیں ہمیشہ یاد رہیں گی ۔ سن 1857 میں پہلی غدر کی چنگاری پھوٹی تھی ۔ اس کی مکمل شروعات 1942 میں ہوئی جب گاندھی جی نے 09 اگست کو ممبئی میں ’کرو یا مر و ‘ کا منتر دیا ۔ انگریزوں کو’ بھارت چھوڑو‘کی یہ آخری چیتائونی تھی ۔ جس کے عوض ملک 15 اگست 1947 کو آزاد ہو سکا ۔ بھارت چھوڑو آندولن کو اگست کرانتی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔
ان دنوں دوسرا عالمی جنگ شروع ہو گیا تھا۔جاپان جنوب مشرقی ایشیاء میں جیت پر جیت درج کر رہا تھا۔نیتا جی سبھاش چندر بوش جر منی ، جاپان کے ساتھ فوجی مہم میں شامل تھے ۔ آزاد ہند فوج کے تئیں ملک میں جذباتی لگائو تھا ۔ ان دنوں برٹن میں چرچل کی حکومت تھی ۔ جو ہندوستانی کی آزادی کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی ۔ کرپس مشن کے ذریعہ سے ہندوستان کی حمایت جنگی کوششوں میں حاصل کرنے کی تجویز سے ملک میں مایوسی غمگینی کاماحول تھا ۔ مہنگائی نے لوگوں کی کمر توڑ دی تھی ۔ اس درمیان امریکی فوجیں بھی ہندوستان میں آگئی تھیں ۔ 5 جولائی 1942 کو گاندھی جی نے ہر یجن میں لکھا ’انگریزوں بھارت جاپان کے لئے مت چھوڑو لیکن ہندوستان کو ہندوستانیوں کے لئے مزین طریقے سے چھوڑ جائو۔
08 اگست 1942 کو بھارتیہ نیشنل کانگریس کمیٹی کی نشست ممبئی میں ہو ئی ۔ اس میں یہ فیصلہ لیا گیا کہ ہندوستانی اپنا تحفظ خود کرسکتا ہے ۔ انگریز بھارت چھوڑ دیں ۔ ان کے جانے کے بعد غیر مستقل حکومت بنے گی ۔ بر ٹش حکومت کو ہٹانے کے لئے عوامی جن آندولن چھوڑا جائے گا ۔ اس کے لیڈر گاندھی جی ہوں گے ۔ ممبئی کے تاریخی گوالیہ ٹینک میں اس بھارت چھوڑو تجویز کے آخر میں کہا گیا تھا کہ ملک نے سمراج وادی حکومت کے خلاف اپنی خواہش ظاہر کر دی ہے ۔ اب اسے اس پہلو سے لوٹانے کا کو ئی مطلب نہیں ہے ۔ اس لئے کانگریس عدم تشدد طریقے سے معقول طرح زمینی سطح پر گاندھی جی کی قیادت میں جن سنگھرس شروع کرنے کی تجویز شروع کر تی ہے ۔ گاندھی جی نے اس تجویز پر 70 منٹ تک اپنے خیالات رکھے ۔ انہوں نے وہاں موجود ہزاروں لوگوں کے درمیان کہا میں آپ کو ایک منتر دیتا ہوں’کرو یا مرو ‘ جس کا مطلب تھا بھارت کی عوام آزادی کے لئے ہر طریقے سے کوشش کریں اور اس کے لئے اپنی قربانی بھی دیں ۔ انہوں نے کہا وہ لوگ جو قربانی نہیں دے سکتے ہیں آزادی نہیں پاسکتے ہیں ۔ ’’خطاب کے آخر میں گاندھی جی نے کہا ‘‘اب کی جو لڑائی چھڑے گی وہ اجتماعی لڑائی ہو گی ۔ ہمارے منصوبے میں مخفی کچھ نہیں ہے ۔ ہماری تو کھلی لڑائی ہے ہم ایک سمراج سے لڑائی لڑنے جارہے ہیں اور ہماری لڑائی بالکل سیدھی لڑائی ہوگی ۔ اس بارے میں آپ کسی وہم میں نہ رہیں ۔
08 اگست کی تجویز پاس ہوتے ہی بر ٹش حکومت حرکت میں آگئی ۔ 09 اگست 1942 کے صبح ہی گاندھی جی سمیت کانگریس کے بڑے لیڈروں کی گرفتاری شروع ہو گئی ۔ ابھی صبح کے پانچ بجے ہی تھے کہ گاندھی جی کے قیام گاہ کو پو لیس نے گھیر لیا ۔ پو لیس کے سپاہی دیواریں پھاند کر اندر پہونچ گئے ۔ نہرو جی ، مولانا آزاد وغیرہ کو گرفتار کر جیل پہونچا دیاگیا ۔ کانگریس کو غیر قانونی تنظیم قرار دے دیاگیا ۔ جلوسوں پر روک لگا دی گئی ۔ 09 اگست کی صبح ملک بھر میں کھلے طور پر غدر کا بگل بج گیا ۔ بمبئی میں گوالیئر ٹینک میں جب ارونا آصف علی نے تر نگا لہرانے کی کوشش کی تو پو لیس نے لاٹھیاں برسائی ۔ یہ خبر ملک بھر میں آگ کی طرح پھیل گئی ۔ گاندھی جی نے اپنے تاریخی اپیل میں صحافیوں سے کہا تھا کہ مو جودہ پابندیوں کے رہتے لکھنا چھوڑ دیں گے ،اور تبھی قلم کو ہاتھ لگائیں گے جب ہندوستان آزاد ہوجائے گا ۔ سرکاری ملازمین سے کہا وہ نو کر ی نہ چھوڑیں لیکن ظالمانہ مخفی دستاویزوں پر عمل نہ کریں ۔ طلباء سے امید کی ہے کہ وہ ٹیچروں سے کہہ دیں کہ وہ کانگریس کے ساتھ ہیں اور آزادی کے سنگھرس میں شامل ہوں ۔ باپو نے فوجیوں سے کہا کہ وہ مناسب حکم تو مانیں لیکن اپنے ملک کے باشندوں پر گولی چلانے سے انکار کر دیں ۔ یہاں ایک تاریخی سانحہ کا بیان بھی ضرور ی ہے ۔ الہ آباد میں 27 اپریل 1942 کو کانگریس کار سمیتی کو بھیجے ایک تجویز میں گاندھی جی نے کہا تھا کہ بر ٹن نے ہندوستان کی خواہش کے خلاف اسے جنگ میں گھسیٹ لیا ہے ۔ وہ ہندوستان کے تحفظ میں غیر اہل ہیں ۔ اس کے خلاف ہندوستان اپنی تحفظ میں اہل ہے ۔ اس تجویز کے حق میں نہ نہرو جی تھے ، نہ ہی راجہ جی اور نہ مولانا آزاد ۔ وہ سمجھتے تھے اس سے ہم جاپان ۔ جرمنی کے حق میں کھڑے دکھائی دیں گے ۔ فاسسٹ مخالف نہرو جی بر ٹن اور جاپان کو ایک ترازو پر تولنے کے تئیں شک کے دائرے میں تھے ۔ گاندھی جی کا کہنا تھا کچھ بھی ہو انگریز جائیں ۔ اپنے سے الگ رائے رکھنے پر ایک بار تو گاندھی نے نہرو اور مولانا آزاد سے استعفیٰ تک مانگ لیا تھا ۔ لیکن چوں کہ کو ئی تب کانگریس میں درار نہیں چاہتا تھا اس لئے آخر میں سب نے طے کیا کہ سنگھرس میں گاندھی جی کی قیادت میں چلنا لازمی ہے ۔ کانگریس نے گاندھی جی سے ملک کی قیادت اور پتھ مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ۔ اس کے تجویز کار نہرو جی تھے۔ جبکہ تجویز کی حمایت سردار پٹیل نے کی ۔ نہرو جی نے کہا ’’ اب تو ہم آگ میں کود پڑے ہیں یا تو کامیاب ہو کر نکلیں گے یااسی میں جل کر خاک ہو جائیں گے ۔ اگست کے آندولن میں شری جے پرکاش نارائن اورڈاکٹر لوہیا کا کر دار کم اہم نہیں رہا ۔ ڈاکٹر لوہیا نے آزاد ریڈیو سے نشر شروع کیا ۔ جے پرکاش جی اس وقت ہزاری باغ سینٹرل جیل میں بند تھے ۔ 11 نومبر 1942 کو دیوالی کی رات و ہ پانچ ساتھیوں کے ساتھ جیل کی دیوار پھاند کر نکل بھاگے ۔ کافی وقت وہ اور ڈاکٹر لوہیا نیپال میں چھپے رہے لیکن بعد میں پکڑے گئے ۔ ان کی چرچہ سے ملک آندولن پر گامژن ہو گیا تو برٹش حکومت کے پائوں کانپنے لگے ۔
اس درمیان دو قابل ذکر وارداتیں ہو ئیں ۔ برٹش حکومت نے 13 فروری 1943 کو کانگریس اور گاندھی جی پر اگست آندولن کے درمیان ہی تشدد انہ وارداتوں کا قصور مڑ ھ دیا ۔ گاندھی جی نے اس پر اعتراض جتاتے ہو ئے وارداتوں کی شفاف جانچ کی مانگ کی ۔ 10 فر وری 1943 سے گاندھی جی بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئے ۔ اس درمیان وائے سرائے کونسل سے بھی کئی رکن مخالفت کی شکل سے ہٹ گئے ۔ اسی درمیان آزاد ہند فوج کی تشکیل اور نیتا جی سبھا ش چندر بوس کے ’’دہلی چلو ‘‘ اپیل نے سنسنی پھیلا د ی تھی ۔ نیتا جی کی نظر بندی سے غائب ہوجانے کی دلچسپ کہانی سے ملک کے باشندے حوصلہ مند اور برٹش حکومت ڈر گئی تھی ۔ ادھر برٹن میں لیبر پارٹی کی حکومت بھی بن گئی تھی ۔جو ہندوستان کی آزادی کی طرف دار تھی ۔ آخر 15 اگست کو آزاد تو ہوا لیکن برٹش حکومت کی سازشانہ پالیسی نے آزادی کو درہم بر ہم کر
جناً کے اصول کو مان کر پاکستان کا بھی تعمیر کرادیا ۔اگست کرانتی کے اثر کی از سر نو معائنہ اور ریسرچ کئے جانے کی ضرورت ہے ۔ جواہر لال نہرو کے ایک آنکڑے کے مطابق سن 1942 میں ساٹھ ہزار سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیاگیا ۔ دس ہزار لوگ مار ے گئے ۔ لیکن ضلعوں کے صدور حلقوں میں موجودہ حکومت کے استحصال کا شکار اکثر کی کہانی انکہی رہ گئی ہے ۔ جیل صعوبت میں کتنے ہی خاندان بکھر گئے تھے ۔
بر ٹش حکومت کی رپورٹ تھی کہ اس وقت 60 ہزار گرفتار ہو ئے ، 18 ہزار بغیر کسی مقدمہ چلائے نظر بند ہو ئے ، جن میں 90 کی موت ہو گئی ۔ 250 ریلوے اسٹیشنوں پر حملے ہو ئے ۔ 50 ڈاک خانہ جلا دئے گئے ۔ 150 پو لیس چوکیوں پر حملے ہو ئے ، 30 سے زیادہ سپاہی مارے گئے ۔ سچائی یہ ہے کہ اس آندولن میں بر ٹش حکومت نے اپنی ظلم و بربریت کی حد پارکر دی تھی ۔ دیہی علاقوں میں اجتماعی جرمانہ لگاکر قرقی وصولی کی گئی ۔ طلباء کو گھیر کر ان کے سینے پر سنگینیں رکھ کر گو لیاں چلائی گئیں ۔ ان کے ننگے بدن پر بیت لگاتے تھے ۔ عورتو ں کے ساتھ عصمت دری کی تمام وارداتیں ہو ئیں ۔ اڑیسہ میں مر دوں اور عورتوں کو ننگا کر کے پیڑوں سے ٹانگ دیاگیا اوران کے کپڑوں میں آگ لگادی گئی ۔ منگیر ، بلیا میں ہوائی جہاز سے گولے برساکر اٹھتی آواز کو کچلنے کی کوشش ہو ئی ۔
اس میں دو رائے نہیں کہ گاندھی جی کے ’’کرو یا مرو ‘‘ کی اپیل پر پورا ملک ایک دھدھکتا جوالہ مکھی بن گیا تھا ۔1857 کی کرانتی میں میرٹھ کے سپاہیوں سے ہتھیار چھین لئے گئے تھے ۔ ان کے غدر کی وجہ سے ایسٹ انڈیا کمپنی کا راج ختم ہوا تھا ۔ 1942 میں بر ٹش حکومت نے بے قصور عوام کو کچلا ، گائوں کو جلایا ، گھروں میں لوٹ کی،خواتین کی سر عام بے عزتی کی ۔ اندھا دھند گرفتاریاں کی ،بچوں کو بھی گولیا ں ماری ،اشتعال انگیز عوام نے تب اپنے ہاتھوں میں کرانتی کی مشال تھام لی ۔
کانگریس کے سینئر لیڈر شری گووند سہائے نے تب ’’سن بیالیس کا غدر ‘‘ کتاب میں لکھا تھا ۔ سن 1857 کا غدر فرانسیسی راج کرانتی سن 1917 کی روسی لال کرانتی سبھی کتنی ہی باتوں میں اس کے سامنے پھیکے جان پڑتے ہیں ۔ سن 42 کا کھلا غدر پرانے سب پر یتنوں سے دھریہ، پالیسی ، نپڑتا ، سنگٹھن ، بلیدان ، اور عوامی حوصلہ سبھی معاملوں میں کہیں بڑھا چڑھا ہے ۔ یہ وہ اجتماعی کوشش تھی جس کی چنگاری گائوں گائو ں پھیل گئی تھی ۔ ایسا لگتا تھا کہ سارا ملک گہری نیند سے جاگ کر یکا یک اٹھ کھڑا ہوا ہے ۔
ڈاکٹر رام منوہر لوہیا اگست کرانتی کو بے حد اہم مانتے تھے ۔ انہوں نے 2 اگست 1967 کو ڈاکٹر جی جی پاریکھ کو لکھے گئے خط میں کہا تھا 15 اگست اسٹیٹ دیوس ہے ۔ 09 اگست یوم پیدائش ہے ۔ کو ئی دن ضرور آئے گا جب 09 اگست کے سامنے 15 اگست پھیکا پڑے گا اور ہندوستان امریکا کے 4 جولائی اور فرانس کے 14 جولائی جو وہاں یو م پیدائش ہے ۔ اسی طرح 09 اگست کو منایاجائے گا ۔ اگست کرانتی کی 75 ویں سالگر ہ پر ہم ان کو جذباتی خراج عقیدت پیش کر تے ہیں ۔ جن کی قربانیوں سے ہم آج کھلی فضا میں سانس لے رہے ہیں ۔
*****************
مضمون نگارتصنیف کار ‘یش بھارتی سمان ،و سینئر صحافی ہیں
رابطہ نمبر 19 وکرمادتیہ مارک لکھنؤ ۔ اتر پردیش 226001
موبائل نمبر 9454508517,6394740554