سبق آموز حقیقت

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 6th Aug

بہار کی نتیش حکومت جس طرح عوامی معاملات میں بدعنوانی کو لیکر زیرو ٹالرنس کے اصول پر قائم ہے ، ٹھیک اسی طرح وہ اپنی پارٹی (جے ڈی یو) کی سطح پر بھی سخت ہے۔ یہ بات تب سامنے آئی ہے جب پارٹی کے ریاستی صدر امیش سنگھ کشواہا نےبدعنوانی کے معاملے میں، اپنے مکتوب نمبر 22/145 ، مورخہ 4 اگست، 2022 کے تحت اپنی پارٹی کے سابق قومی صدرو سابق مرکزی وزیر آر سی پی سنگھ کو وجہ بتاؤ نوٹس بھیجا ہے۔ نوٹس کی زبان اور لہجہ گرچہ بہت ہی شائستہ ہے تاہم پارٹی کی سطح پر اسے بہت ہی سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔بعض لوگ اس معاملے کو وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے، بدعنوانی کے معاملے میں زیرو ٹالرنس کے اصول کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں اور یہ مان رہے ہیں کہ اس سے آر سی پی سنگھ کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔پارٹی کی جانب سے آر سی پی سنگھ کو وجہ بتاؤ نوٹس بھیجے جانے کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ ان کے خلاف نالندہ ضلع کے جے ڈی یو بلاک صدر نے پارٹی کو ایک رپورٹ بھیجی ہے۔ رپورٹ میں 2013 سے 2022 کے درمیان، آر سی پی سنگھ کے ذریعہ اپنے اور اپنے قریبی رشتہ داروں کے نام سے بےحساب غیر منقولہ اثاثہ، جس میں نالندہ ضلع کے دو بلاکوںمیں خریدی گئی 40 بیگھہ زمین بھی شامل ہے، بنانے کی بات کہی گئی ہے۔ اسی رپورٹ کی بنیاد پر جے ڈی یو کی ریاستی کمان نے بالواسطہ طور پر آر سی پی سنگھ پر بدعنوانی کا الزام عائد کرتے ہوئے ان سے پوائنٹ وائز جواب طلب کیا ہے۔ جواب طلبی نوٹس میں کہا گیا ہے : ’’ قابل احترام رام چندر بابو ! نالندہ ضلع جنتا دل (یو) کے دو ساتھیوں کی طرف سے ثبوت کے ساتھ شکایت موصول ہوئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ اب تک کی معلومات کے مطابق سال 2013 سے 2022 تک کافی غیر منقولہ جائیداد آپ اور آپ کے خاندان کے نام پر رجسٹرڈ ہوئی ہے۔ جس میں کئی طرح کی بے ضابطگیاں نظر آتی ہیں(شکایت کی کاپی منسلک ہے)۔ آپ ایک طویل عرصے سے پارٹی کے مقبول عام لیڈر جناب نتیش کمار جی کے ساتھ ایک افسر اور سیاسی کارکن کے طور پر کام کر تے رہے ہیں۔ آپ کو دو بار راجیہ سبھا کے رکن، پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری (تنظیم)، قومی صدر اور مرکز میں وزیر کے طور پر پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا گیا۔ آپ اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ عزت مآب رہنما بدعنوانی کے خلاف زیرو ٹالرنس پر کام کرتے رہے ہیں اور اتنی طویل عوامی زندگی کے باوجود ان پر کوئی داغ نہیں لگا اور نہ ہی انھوں نے کوئی دولت بنائی۔ حسب ہدایت پارٹی آپ سے توقع کرتی ہے کہ آپ شکایت کے نکات پر اپنی واضح رائے سے پارٹی کو فوری طور پر مطلع کریں گے۔‘‘
جے ڈی یو کی داخلی سیاست میں دلچسپی لینے والوں کا کہنا ہے کہ گیارہ برسوں کے دوران جتنے بھی غیر منقولہ اثاثے آر سی پی سنگھ بنائے ہیں، ان کا ذکر انھوں نے اپنے انتخابی حلف نامے میں نہیں کیا ہے۔چنانچہ پارٹی کا الزام ہے کہ جے ڈی یو کے سابق قومی صدر نے اس حقیقت کو صیغۂ راز میں رکھا۔جے ڈی یو نے یہاں تک الزام لگایا ہے کہ آر سی پی سنگھ نے اپنی بیوی کے نام میں ہیرا پھیری کرکے زمین خریدی ہے۔واضح ہو کہ آر سی پی سنگھ کو جے ڈی یو کوٹے سے دو بار راجیہ سبھا بھیجا گیا۔ جس کے بعد انہیں مرکز میں اسٹیل کا وزیر بنایا گیا۔ آر سی پی سنگھ کی خواہش ایک بار پھر مرکزی وزیر رہنے کی تھی۔ اس کے لیے انھوں نےبہت کوششیں بھی کیں، لیکن پارٹی کے اندر ان کے لیے ماحول موافق نہیں رہ گیا تھا۔ چنانچہ اس بار جے ڈی یو کی جانب سے جھارکھنڈ کے ریاستی صدر اور سابق رکن اسمبل کھیرو مہتو کو راجیہ سبھا بھیجا گیا۔اس کو لیکر صرف آر سی پی سنگھ اور ان سے جڑے پارٹی کارکنان میں ہی نہیں ، نالندہ ضلع واقع ان کے آبائی گاؤں مصطفیٰ پور کے لوگوں میں بھی مایوسی دیکھی گئی۔آر سی پی سنگھ سے وا بستہ چند پارٹی کارکنان اس معاملے کو لیکر پارٹی اعلیٰ کمان سے اس قدر ناراض ہوئے کہ اپنے لیڈر آر سی پی سنگھ میں انھیں بہار کے وزیر اعلیٰ کا چہرہ نظر آنے لگا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جب مرکزی وزیر کے عہدے سے استعفیٰ دیکر آر سی پی سنگھ پہلی بار بہار پہنچے تو سب سے پہلے خود سے جڑے پارٹی کارکنان سے ملنے جہان آباد گئے، جہاں ان کی حمایت میں خوب نعرے لگے۔ ان نعرو ں میں ایک نعرہ یہ بھی شامل تھا کہ ’’ بہارکا وزیر اعلیٰ کیسا ہو، آر سی پی سنگھ جیسا ہو۔‘‘ اب سنا تو یہی جا رہا ہے کہ اسی ایک نعرہ کے بعد سے ہی آر سی پی سنگھ کے دن مزید خراب ہونے لگے۔ اور اب یہ نیا معاملہ زمین کا آگیا ہے۔
قابل کر ہے کہ یوپی کیڈر کے آئی اے ایس افسر آر سی پی سنگھ سب سے پہلے نتیش کے ساتھ اس وقت رابطے میں آئے جب وہ 1996 میں اس وقت کے مرکزی وزیر بینی پرساد ورما کے پرائیویٹ سکریٹری کے طور پر تعینات تھے۔ نتیش کمار اور آر سی پی سنگھ کی دوستی اس لیے بھی گہری ہوئی کہ دونوں بہار کے نالندہ سے ہیں اور ایک ہی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نتیش کمار ایک بیوروکریٹ کے طور پر آر سی پی سنگھ کے کردار سے بہت متاثر تھے۔یہ تاثردھیرے دھیرے دوستی میں بدل گیا ۔چنانچہ اسی دوستی کے سہارے آ ر سی پی سنگھ نے سیاست میں قدم رکھا اور پھر جے ڈی یو کے قدآور رہنما بن گئے۔لیکن اب پارٹی سطح سے ہی یہ بازگشت سنائی دینے لگی ہے کہ آر سی پی سنگھ کی حدسے زیادہ خود اعتمادی نے ہی ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچ لی ہے۔یہ واقعہ ملک کے تمام سیاستدانوں کے لئے ایک سبق آموز حقیقت سے کم نہیں ہے۔