ملک کا صدرآئین کا اصل محافظ ہوتاہے

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 2nd Aug

پروفیسرعتیق احمدفاروقی

ہندوستان کی 15ویں صدر دروپدی مرمونے 25جولائی کو آئین کا حلف لیکر اپنا عہدہ سنبھال لیا۔صدر کے اختیارات اورسرکاری فریضہ آئین کی دفعہ 74میں تحریر ہے ۔اپنی ابتدائی شکل میں اِس دفعہ میں کہاگیاہے ،’’اپنے فرائض کو انجام دینے میں صدر کو صلاح اورتعاون کرنے کیلئے ایک وزراء کی کونسل ہوگی جس کی قیادت وزیر اعظم کریں گے۔‘‘اگر صاف گوئی سے اظہار کیاجائے تو یہ جملہ غلط فہمیوں کا سبب بناہے اوراس میں دوترامیم کرنی پڑی ہیں ۔
ڈاکٹرراجند پرساد نے آئین ساز اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے آئینی صلاح کار بی-این-راؤ کو لکھاتھا ،’’انہوں نے آئین کے مسودہ میں کوئی ایسا بندوبست نہیں پایا جس میں متعدد نکات کے تحت یہ طے کردیاگیاہو کہ صدر اپنے وزراء کی صلاح کے مطابق کام کرنے کیلئے پابندہے‘‘۔اِس سلسلے میں ان کی بحث بی-آر-امبیڈکر ،جواہر لال نہرو اورسردار ولبھ بھائی پٹیل سے بھی ہوئی تھی لیکن عارضی طور پر ہی صحیح اس وقت کے اٹارنی جنرل ایم- سی- سیتل واڈاورآئین ساز اسمبلی کے رکن الاّدی کرشنا سوامی نے اس مدعہ کا حل تلاش کرلیاتھا۔ جب سروپلی رادھا کرشنن ہندوستان کے صدر بنے تو یہ مدعہ عارضی طور پر دب گیا لیکن ہمیشہ کیلئے نہیں ۔1967ء کے صدارتی انتخاب میں سابق چیف جسٹس سُباراؤ جو کہ ذاکر حسین کے مدمقابل الیکشن لڑرہے تھے، نے دعویٰ کیاکہ وہ وزراء کی کونسل کی صلاح ماننے کیلئے پابند نہیں ہیں۔ اگرچہ وہ انتخاب ہارگئے ، اُن کی مہم نے اس مدعے پر گہرا اثر چھوڑا۔ 1976ء میں 42ویں آئینی ترمیم میں دفعہ 74کو بھی بدل دیاگیا اورکہاگیا، ’’صدر کو صلاح اور تعاون فراہم کرنے کیلئے وزیراعظم کی قیادت میں ایک وزرا ء کی کونسل ہوگی اورصدر اپنے فرائض کو انجام دینے میں ایسی صلاحوں کے مطابق کام کریں گے‘‘۔ ترمیم کی زبان اچھی نہیں تھی ۔ قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ اس بندوبست کا استعمال 1977ء میں برسراقتدار جنتاپارٹی کی حکومت نے مختلف ریاستوں کی کانگریس سرکاروں کو گرانے کیلئے کیا۔ کارگزار صدر بی -ڈی -جٹی ، جو فخرالدین علی احمد کے انتقال کے بعد ان کی جگہ پر کام کررہے تھے، دبدھے میں پڑگئے لیکن آخیرمیں انہیں برسراقتدار حکومت کی راہ اختیار کرنی پڑی۔ 1978ء میں حالات بہترہوئے جب دفعہ 74میں دوبارہ ترمیم کرکے لکھ دیاگیا (44ویں ترمیم )، ’’یہ بندوبست کردیاگیاکہ صدر عموماً یاخصوصاً وزراء کی کونسل سے اُس کی رائے پرنظر ثانی کرنے کو کہہ سکتاہے لیکن وزراء اگراپنی رائے نہیں بدلتے توصدر اسے ماننے کیلئے پابندہے۔ ‘‘اِس ترمیم نے کچھ موقعوں پر وزراء کی کونسل کو اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کیاہے۔ مثال کے طور پر اِس بندوبست نے اترپردیش میں کلیان سنگھ کی وزارت کوبچایاتھا کیونکہ صدر کے آرنارائنن نے 1997ء میں برخواستگی کی تجویز کو مرکز کی یونائٹیڈ فرنٹ حکومت کو نظر ثانی کرنے کیلئے لوٹادیاتھا۔ تاہم صدر کی تجویز کبھی واپس نہیں لوٹی اورکلیان سنگھ کی حکومت گرنے سے بچ گئی۔ دوسری طرف صدراے پی جے عبدالکلام نے 2005میں بہار میں صدر راج کی توثیق بنانظرثانی کی تجویز بھیجے ہوئے کی۔ بعد میں اسے عدالت عظمیٰ نے غیرآئینی قرار دے دیا۔اترا کھنڈ کا معاملہ بے مثل تھا۔ وہاں 2016ء میں بناگورنر کی سفارش کے صدر راج نافذ کردیاگیا۔ آئین میں گورنر کی رپورٹ پر یادوسرے طور طریقے وغیرہ سے گورنر راج کا التزام ہے۔ مرکز نے اتراکھنڈ کے معاملے میں اسی طریقے کو اپنایا۔ایک دوسرا غیرمعمولی کام یہ ہوا کہ فلور ٹیسٹ کیلئے اسمبلی کو عارضی طور پر فعال بنانے کیلئے صدر راج کو چند گھنٹوں کیلئے معطل کردیاگیا اوردلچسپ بات یہ ہے کہ فلور ٹیسٹ کو اسمبلی کے اسپیکر یا اس کے نائب نے انجام نہیں دیا بلکہ یہ کام ایک عدالتی افسر نے انجام دیاتھا۔ اپنی کتاب ’دی پرسیڈنشیل ایئرس ‘میں پرنپ مکھرجی نے واضح کیاکہ انہوں نے فائل کو نظرثانی کیلئے واپس نہیں بھیجاکیونکہ انہوں نے اس سلسلے میں اس وقت کے وزیرمالیات ارون جیٹلی اورپرنسپل سکریٹری نریپندر مشرا سے گفتگو کی تھی ۔ انہوںنے مزید بتایاکہ وہ تب بھی فائل کو واپس بھیج سکتے تھے لیکن یہ چیز اخباروں کی سرخیوں میں آتی ۔صدر کے حلف کی تفصیل آئین کی دفعہ 60میں دی گئی ہے۔صدر اورگورنر کی حلف برداری قریب قریب ملتی جلتی ہے لیکن دوسرے عہدیداروںکی حلف برداریاں مختلف ہیں۔ ہندوستان کا صدر آئین کو محفوظ رکھنے ، بچانے اورمدافعت کرنے کاحلف لیتاہے جبکہ دوسرے عہدیدار آئین کے تئیں سچی عقیدت اوروفاداری کا عہد کرتے ہیں ۔جیسا کہ واضح ہے کہ آئین کو محفوظ رکھنا ، بچانااوراس کیلئے مدافعت کرنا پیش قدمی کی توقع کی نشاندہی کرتے ہیں۔ دونوں حلف برداریوں کے معنی اوران کے اسلوب بیان میں کافی فرق ہے۔ دفعہ 74کے مواداور اس کے حدود کو تشریح کے ذریعے 1950ء سے اب تک کافی بدل دیاگیاہے لیکن اس حلف کی ابتدائی وضع قطع وہی ہے۔ جب یہ معاملہ آئین ساز اسمبلی میں زیر بحث تھا ،آسٹریلیا اورامریکہ کے ماڈل پر غور کیاگیاتھا۔ آئین سے متعلق اصطلاحات محفوظ رکھنا ،بچانا اورمدافعت کرنا دراصل امریکہ کے آئین میں ملتے ہیں۔ وہاں کے صدر ہی اِن الفاظ میں حلف لیتے ہیں اورہم لوگوں نے انہیں الفاظ کو ہندوستانی صدر کے حلف کیلئے اپنالیاہے جبکہ ہمارے یہاں پارلیمانی جمہوریت کو نافذ کیاگیاہے۔امریکہ میں جمہوریت کی صدارتی شکل کو اپنایاگیاہے۔ اس طرح یہ بات واضح ہے کہ آئین ساز اسمبلی کے ممبران اورخصوصاً ڈاکٹرامبیڈکر ہندوستان کے صدر کو ’گولڈن زیرو ‘نہیں بناناچاہتے تھے۔ اپنی موجودہ شکل میں یہ حلف اس بات کی نشاندہی کرتاہے کہ ہندوستان کے صدر کا آئین میں اعلیٰ ترین اوربے مثال مقام ہے۔ صدر عملی طور پر کہاں تک اِس مقام کو حاصل کرتاہے یہ بہت کچھ اُس کی شخصیت پر منحصر ہوتاہے۔
***************
رابطہ نمبر:9161484863