نئی حکومت نئے چیلنجز

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 16th Aug

بہار کی سیاست پر ان دنوں پورے ملک کی نظر ہے۔این ڈی اے حامی عوام بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی سیاست کے سلسلے اپنے انداز سے کچھ نہ کچھ بول کر اپنے من کی بھڑاس نکالنے میں لگے ہوئے ہیں۔دوسری جانب عظیم اتحاد حامی لوگ نتیش کمار کی سیاست کی تعریف کرتے نہیں تھک رہے ہیں۔ایسے لوگ نتیش کمار میں ملک کے وزیر اعظم کی شبیہ دیکھ رہے ہیں۔ اس طرح کی سوچ رکھنے والوں میں سے جن کا تعلق بہار سے ہے،ان کا کہنا ہے کہ بہار کی مٹی میں ہی اتنا دم ہے ، جو کبھی لال کرشن اڈوانی کے فسادی رتھ کو روک دیتا ہے اور کبھی جوڑ توڑ کی سیاست کرنے والی بی جے پی کے وجے رتھ کو۔ این ڈی اے سے کنارہ کش ہوکر عظیم اتحاد کی حمایت سے بہار میں نتیش کمار کی قیادت میں قائم ریاست کی نئی حکومت کی کل جب پہلی کابینہ کی توسیع ہو رہی تھی، تب بھی کچھ لوگ یہ چرچا کر رہے تھے کہ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں بہار کے عوام کی حمایت در اصل عظیم اتحاد کو ہی حاصل تھی لیکن جوڑ توڑ کرکے این ڈی نے بازی مار لی تھی۔
کل بروز منگل راج بھون سے باہر ریاست بہار کے چوک چوراہوں پر ہو رہی طرح طرح کی چہ میگوئیوں کے درمیان ہی گورنر پھاگو چوہان نے نتیش کمار اور تیجسوی کی ٹیم سے 5 مسلمان، 17 اوبی سی اور ای بی سی، 6 اعلیٰ ذات اور 5 ایس سی سے تعلق رکھنے والے ، آر جے ڈی، جے ڈی یو، کانگریس، ہم، لیفٹ اور آزاد ایم ایل ایز کی حمایت سے تشکیل پذیر عظیم اتحاد حکومت کے نئے وزراء کو عہدہ اور رازداری کا حلف دلایا۔ وزرا کی تعداد کے اعتبار سے بہار کی نئی حکومت میں آر جے ڈی بڑے بھائی کے کردار میں ہے۔ سب سے پہلے جے ڈی یوکے سینئر لیڈر وجے کمار چودھری، آر جے ڈی سپریمو لالو پرساد کے بڑے بیٹے تیج پرتاپ یادو، وجیندر یادو، آلوک مہتا اور شاہنواز نے وزیر کے طور پر حلف لیا۔ دوسرے دور میں اشوک چودھری، شرون کمار، سریندر یادو، لیشی سنگھ اور رامانند یادو نے حلف لیا ہے۔ پورنیہ ضلع کی دھمداہا اسمبلی سیٹ سے منتخب ایم ایل اے لیشی سنگھ نے حلف برداری سے پہلے ہی وزیر بنائے جانے کی تصدیق کردی تھی۔ انہوں نے اس کے لئے نتیش کمار کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔ساتھ ہی انھوں نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ 2024 میں لال قلعہ پر کوئی اورپرچم کشائی کر ے گا۔ تیسرے راؤنڈ میں مدن ساہنی، للت یادو، سنجے جھا، سنتوش سمن اور کمار سروجیت نے بحیثیت وزیر پر حلف لیا۔ سنجے جھا جے ڈی یو کے بڑے لیڈر ہیں۔شیلا منڈل، سمیت سنگھ، سنیل کمار، چندر شیکھر اور سمیر مہا سیٹھ نے چوتھے راؤنڈ میں حلف لیا۔ سمیت سنگھ واحد آزاد ایم ایل اے ہیں، جو عظیم اتحاد کی حکومت میں شامل ہیں۔ پانچویں راؤنڈ میں انیتا دیوی، سدھاکر سنگھ، محمدزماں خان، جتیندر رائے اور جینت راج نے اور چھٹے راؤنڈ میں اسرائیل منصوری، سریندر رام، کارتک سنگھ، مراری پرساد اور شاہنواز عالم نے بطور وزیر حلف لیا۔ آر جے ڈی کیمپ سے پانچ نئے ایم ایل ایز شاہنواز، سدھاکر سنگھ، ڈاکٹرشمیم احمد، اسرائیل منصوری کو وزیر بنایا گیا ہے۔عظیم اتحاد کی تیسری بڑی پارٹی کانگریس سے ابھی صرف دو ایم ایل ایز آفاق عالم اور مراری گوتم کو ہی وزیر بنایا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے پارٹی کے اندر تھوڑی ناراضگی بھی پائی جا رہی ہے۔
عظیم اتحاد کی سیاست پر دزدیدہ نظر رکھنے والے سیاسی بازیگروں کا خیال ہے کہ بھلے ہی بہا ر میں نئی حکومت کے قیام سے سیاسی بحران پر ابھی بھلے ہی قابو پالیا گیا ہے لیکن ریاست کے کئی سنگین چیلنجز نتیش حکومت کے سامنے ہیں۔نیتی آیوگ کے مطابق بہار ملک کی تیسری غریب ترین ریاست ہے۔اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ریاست میں ہر دوسرا شخص خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ایسے لوگوں کی صحت، تعلیم اور معیار زندگی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ آبادی میں غذائیت کی سطح، بچوں اور نوعمروں کی شرح اموات، پیدائش سے پہلے دیکھ بھال، اسکولی تعلیم کی سطح اور اسکولوں میں بچوں کی موجودگی کے ساتھ ساتھ صفائی، پینے کا پانی، رہائش پر بھی مؤثر ڈھنگ سے کام کرنا ہوگا۔گزشتہ اسمبلی انتخابات میں تیجسوی یادو نے 10 لاکھ بے روزگاروں کو ملازمت دینے کا وعدہ کیا تھا۔اگر یہ وعدہ پورا ہو جاتا ہے تو یہ نتیش حکومت کی بہت بڑی حصولیابی ہوگی۔تاہم نئی حکومت میں نائب وزیر اعلیٰ بننے کے بعدانھوں نے اگلے ایک ماہ میں ریاست کے غریبوں اور نوجوانوں کو بمپر روزگار فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔وہ کہہ چکے ہیں کہ ہماری لڑائی بے روزگاری کے خلاف ہے۔
ادھر آر بی آئی کی اسٹڈی میں کہا گیا ہے کہ بہار ان 4 بڑی ریاستوں میں شامل ہے، جن کا قرض اور مالیاتی خسارہ مالی سال 2020-21 میں مالیاتی کمیشن کے ذریعہ مقرر کردہ ہدف سے زیادہ ہو گیا ہے۔ دیگر تین ریاستیں راجستھان، آندھرا پردیش اور پنجاب ہیں۔ بہار میں یہ خسارہ ان ریاستوں سے 20 فیصد زیادہ ہے۔ یہ چیلنج بہار کی ترقی میں کسی بڑی رکاوٹ سے کم نہیں ہے۔یہ طے ہے کہ این ڈی اے سے الگ ہونے کے بعد اب نتیش حکومت کا مرکز کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ ایسی صورتحال میں دیکھنا ہوگا کہ سنگل انجن کی حکومت میں نتیش حکومت درپیش چیلنجز کا سامنا کیسے کرتی ہے !