یومِ عاشورہ میں شادی کرنا کیسا۔۔؟

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 3rd Aug

پیرزادہ سید شاہ تبریز حسنات قادری
ناظمِ اعلیٰ خانقاہ قادریہ ابدالیہ محلہ شاہ جمعہ پیر سہسرام بہار

دورِ رواں کا ایک عام سوال یومِ عاشورہ میں شادی کی جا سکتی ہے یا نہیں…؟ حالانکہ ایسے‌ سوالات دیگر مخصوص ایام کے لیے نہیں کیے جاتے۔۔ مثلاً عید الفطر ، عید الاضحٰی یا شب قدر و شب براءت کے مواقع پر شادی کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔۔۔؟ نا جانے کیا وجہ ہے کہ عاشورہ کو ہی چنا گیا ایسے سوال کے لیے۔۔۔ بہرحال اس سوال کے ضمن میں کچھ حضرات جواباً فرماتے ہیں کہ شرعاً کوئی ممانعت نہیں۔۔۔ چاہیں تو شادی کر سکتے ہیں۔۔ اور کچھ حضرات فرماتے ہیں کہ شرعاً ممانعت تو نہیں مگر احتیاط کرنا چاہیے کیوں کہ اس روز شہادتِ امام حسین ہوئی ہے۔۔۔
تو اس پر لوگ کہتے ہیں کہ شہید مرتا نہیں، یہ تو خوشی کی بات ہے شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں وغیرہ وغیرہ ۔ لہٰذا اب یہ ‍اشد ضروری ہو جاتا ہے کہ پہلے یہ سمجھا جائے کہ شریعت ہے کیا اور شریعت کہتے کس کو ہیں۔۔۔؟چنانچہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں عملاً قولاً اور حکماً جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں یا کریں وہ سب شریعت ہے۔۔
یعنی رسول پاک کا اٹھنا بیٹھنا ، کھانا پینا ، مسکرانا غمگین ہونا ، کسی بھی قسم کا عمل کرنا یا حکم دینا سب شریعت ہے۔۔ گویا کہ سراپا ذاتِ رسول پاک علیہ السلام شریعت ہے۔دوسری جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم تک وحی کا نزول ہوتا ہے حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لاتے اور اللہ رب العزت کا پیغام پہنچاتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم فرماتے ہیں حضرت جبرئیل تشریف لائے فلاں آیت کا نزول ہوا صحابہ کرام اسے تحریر کر لیتے ہیں یہ نزولِ وحی کا عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی حالت خلوت و جلوت دونوں میں ظہور پذیر ہوتا مگر کبھی کسی صحابی کو دیدارِ حضرت جبرئیل علیہ السلام نہیں ہوتا۔ دونوں کلام پاک کا ظہور ایک ہی زبانِ مقدس سے ہوتا ہے اور ایک ہی زبان میں ہوتا مگر کلام دو ہوتے ایک حدیث دوسرا قرآن لہٰذا جو وحی کے ذریعے نازل ہوا وہ اللہ کا کلام جسے قرآن مقدس کہا جاتا ہے ، صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی حیاتِ ظاہری میں ہی مکمل طور پر تحریر فرما لیا۔ اس کے بعد احادیثِ مبارکہ یعنی قول و فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کو بھی تحریر کیا گیا اور اکٹھا کر لیا گیا۔ جنہیں کتب احادیث کہا جاتا ہے اس میں سنت نبوی یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے طور طریقے عادات و اطوار کو بھی جمع کیے گیے ساتھ میں قریب ترین صحابہ کرام کے اقوال وفرامین و احکام کو بھی ان کتبِ احادیث میں محدثین جمع کرتے چلے گئے اور بعد میں اجماع و قیاس کے اصول کو بھی جگہ ملی۔۔یعنی بعد میں جب شریعت کو کتابی شکل میں ڈھالا گیا تو قرآن و حدیث اجماع اور قیاس 4 چیزوں کا مرکب شریعت کہا جانے لگا۔۔۔ اب اس میں جب کوئی شرعی فیصلہ لینے کی ضرورت آن پڑی تو سب سے پہلے قرآن سے لیا جائیگا ۔۔ بات فہم و ادراک سے باہر ہونے کی صورت میں حدیث کا سہارا اور آخر میں اجماع و قیاس شامل کرتے ہوئے کوئی بھی شرعی فیصلہ لیا جاتا ہے۔۔ واضح رہے کہ سوال کا جواب قرآن و حدیث سے مل جائے تو اجماع اور قیاس کی کوئ ضرورت نہیں رہ جاتی ہے قیاس میں فیصل کے فہم و ادراکِ زاتی کا عنصر کافی حد تلک شامل رہتا ہے، بعض دفعہ فیصلہ ساز حضرات کے فیصلے پر بصیرت کا تو کبھی بصارت کاغلبہ رہتا ہے یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ جسکے فہم میں جتنی بالیدگی عطا فرمائے ۔ اب چند آیاتِ قرآنی و احادیثِ مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں۔ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اسکے بچے اس کے والدین اور تمام لوگوں سے حتیٰ کہ اسکی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ۔(سنن ابنِ ماجہ 67۔ صحیح۔)
نیز فرمایا ۔آپ فرمائیں میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔( قرآن42:23)
(قرابت داروں سے مراد اہلِ بیتِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بالخصوص مولا علی و بی بی فاطمہ اور امامِ حسنین کریمین رضوان اللہ تعالیٰ عنہما و علیہ السلام ہیں) کنزالایمان و خزائن العرفان ۔ مذکورہ بالا آیت و حدیث پاک میں محبت کرنے کی بات کہی گئی ہے جبکہ محبت خود رفتہ عمل میں آ نے والا احساس ہے مگر پھر بھی محبت کا ہی حکم آرہا ہے یعنی محبت کرنی ہی کرنی ہے۔ اگر ایمان محفوظ رکھنا ہے تو یہ کہ کر چھٹکارا نہیں ہونے والا کے محبت ہوئی ہی نہیں ۔ اب ایک نظر یومِ عاشورہ کے تعلق سے کچھ روایات دیکھا جائے ۔۔۔۔ حضرت امِ سلمٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حسن پاک و حسین پاک دونوں میرے گھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھیل رہے تھے ، حضرت جبرئیل علیہ السلام حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اورفرمایا بیشک آپکی امت میں سے ایک جماعت آپکے اس بیٹے حسین کو آپ کے بعد قتل کر دیگی اور آپکو وہاں کی تھوڑی مٹی دی۔ حضور نبی پاک نے اس مٹی کو اپنے سینے سے چمٹا لیا اور رونے لگے آپ کی چشمانِ مبارکہ اشک بار تھیں اور ریش مبارک (داڑھی شریف) تر تھیں پھر مجھ سے فرمایا اے امِ سلمیٰ جب یہ مٹی خون میں تبدیل ہو جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا حسین قتل ہو گیا ۔ حضرت امِ سلمیٰ نے اس مٹی کو شیشی میں رکھ لیا یا اور وہ ہر روز اسکو دیکھتی تھیں، شہادت کے دن سیدہ امِ سلمیٰ مدینۃ شریف میں سو رہی تھیں ، خواب دیکھا کہ نبی کریم علیہ الصلاۃ و التسلیم تشریف لائے اپکے سرِ انور اور داڑھی مبارک پر گرد و غبار تھی، میں نے پوچھا آقا یہ گرد کیسی؟ فرمانے لگے امِ سلمیٰ ابھی اپنے حسین کے قتل کا منظر دیکھ کر آ رہا ہوں، میں میدانِ کربلا سے آیا ہوں ۔ حضرت امِ سلمیٰ نے بیدار ہوتے ہی اس شیشی کو اٹھایا جس میں مٹی بھری تھی، دیکھا تو وہ خون الود ہو چکی تھی ۔ فرمانے لگیں حسین ابن علی جگر گوشہء نبی علیہ السلام کو ظالموں نے شہید کر دیا۔ ( جامع ترمذی ، البدایہ و النہایہ وغیرہ)
متذکرہ بالا احادیثِ مبارکہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سانحہء کربلا انسانی تاریخ کا ایک ایسا عظیم غمناک اور واحد واقعہ ہے جسکے واقع ہونے سے قبل اسکا غم منایا گیا اور عین شہادت کے دن اللہ رب العزت کی تخلیق کردہ اس کائنات کی عظیم ترین ہستی جنکے بارے میں کہا گیا کہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہء مختصر غمگین و پریشان نظر آرہی ہے ۔ وہ شخصیت جنکی محبت ہی عین ایمان ہے اور اس نعمتِ عظمیٰ کے حصول کی اجرت میں انکے اہلِ بیت کی محبت ہے۔ دوسری جانب یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ خوشی اور غم دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں، یہ دونوں ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ اب ذرا غور کریں کہ کسی کا محبوب غمگین و پریشان ہو اور محب خوشی منا کر محبت کا دعویٰ کرے۔ ایسی بات سوائے ڈھونگ کے کچھ نہیں لہٰذا کسی بھی مومن کے نزدیک یومِ عاشورہ کو غم حسین و یاد حسین منانے کے بجاے شادی بیاہ جیسی کوئی بھی خوشی کی تقریبات سجانا جائز نہیں ہو سکتا ۔ بلکہ اس خاکسار کے اہلِ شہر شہسرام و اطراف کے مومنین کے یہاں زمانہِ قدیم سے یہ روش عام رہی ہے کہ ماہِ محرم کے ابتدائی 12 دنوں تک خوشی کی کوئی تقریب منانا تو کوسوں دور اپنے کسی عزیز کی میت ہو جانے پر مرحوم کے نام سے سوئم تیجا چالیسواں تک نہیں کرتے۔ یہ طریقہ کار رہا ہے ادب و احترام و عقیدت و محبت کا امامِ عالی مقام اور انکے نانا جان کے لئے ۔اسکے برعکس کچھ لوگ صراحتاً حکم تلاشتے ہیں کہ یومِ عاشورہ کے لئے کوئی واضح حکم ملے جس میں شادی بیاہ جیسی تقریب منانے کی ممانعت ہو۔ اور ایسے واضح حکم کی عدم موجودگی کے باعث وہ یومِ عاشورہ میں شادی بیاہ کرنے کو جائز ٹھرا دیتے ہیں ۔ مگر انہیں شعور ہی نہیں کے اگر واضح حکم نہیں ہے تو یہ ایک رعایت ہے کہ اگر کسی کی شادی عاشورہ کے روز حادثاتی طور پر ہو جائے تو وہ شادی حرام نہ قرار پائے بلکہ وہ نکاح منعقد ہو جاے نہ یہ کہ شادی کی تقریبات دھوم دھام سے منانا جائزہو جاے
واللہ و رسولہ اعلم ۔۔