Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 8th Sept
ابونصر فاروق:رابطہ:8298104514
ظلم کرنے والا ظالم کہلاتا ہے۔آج کی دنیا کا ہر انسان جانے انجانے میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی پرظلم ضرور کر رہا ہے۔ظلم کا مطلب ہے کسی کو اُس کا حق نہ دینا۔ کسی کو اُس کے حق سے محروم کر دینا۔یا کسی کو اُس کے حق سے کم دینا۔ یا اپنے حق سے زیادہ لے لینا۔کسی کو ذلیل اور رسوا کرنا۔ کسی کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنا۔ کسی پر تہمت لگانا اور اُس کو بدنام کرنے کی کوشش کرنا۔کسی کی مجبوری اور بے بسی کا ناجائز فائدہ اٹھانا۔کسی پر احسان کر کے اُس پر احسان جتانا۔ کسی سے نفرت کرنا۔ کسی کے لئے دل میں کینہ اور حسد رکھنا۔کسی کی ٹوہ میں لگے رہنا اور اُس کی جاسوسی کرتے رہنا۔ کسی کے عیب کو دیکھ کر اُس کو لوگوں میں مشہور کر دینا۔
قرآن میں سینکڑوں جگہ ظلم اور ظالم کا بیان آیا ہے۔قرآن کافر اور مشرک کو بھی ظالم کہتا ہے۔قرآن میں کافر وہ ہے جو اللہ کو نہ جانتاہے نہ پہچانتاہے، اللہ کی عظمت اور قدرت کو نہیں مانتا،اُ س کے رحم و کرم پر بھروسہ نہیں کرتا۔اللہ کے وعدوں کا اعتبار نہیں کرتا۔اللہ کی مکمل بندگی کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔قبر کے عذاب اور حشر کے سوال وجواب پر یقین رنہیں رکھتا۔جنت اور جہنم کی حقیقت کو نہیں جانتا۔مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کئے جانے کا یقین نہیں کرتاہے۔دنیا کی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھتا ہے اور اسی کو حاصل کرنے اور اسی میں مست مگن رہنے کو زندگی کی کامیابی سمجھتا ہے۔
مشرک اُس کو کہتے ہیں جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اللہ تو ہے لیکن وہ دنیا کا انتظام تنہا نہیں چلا رہا ہے۔اُس کے علاوہ بھی ایسی طاقتیں ہیں جو دنیا کا کاروبار چلانے میں اللہ کی مدد کر رہی ہیں۔ اور انسانوں کی تقدیر بنانے بگاڑنے میں اُن کا بھی دخل ہے۔ایسی ہستیاں اتنی طاقت ور ہیں کہ اُن کی سفارش کے بغیر اللہ اپنے بندوں کی فریاد سنتا ہی نہیں۔اور اگر یہ ہستیاں کسی کی مدد یا دشمنی پر اڑ جائیں تو اللہ کو بھی اُن کے آگے جھکنا پڑتا ہے اور اُن کی باتیں ماننی ہوتی ہیں۔اس لئے اللہ کے ساتھ اُن کو بھی خوش اور راضی رکھنا ضروری ہے۔غیر مسلم سارے کے سارے ایسے ہی لوگ ہیں۔ لیکن آج کے مسلمانوں کی نناوے فیصد آبادی بھی اسی بیماری کا شکار ہے،کیونکہ وہ اسلام کی اصلی اور سچی تعلیمات سے انجان اور غافل ہے۔نہ ان مسلمانوں کو یہ باتیں کوئی بتانے والا ہے اور نہ مسلمان ان باتوں کو جاننا، سمجھنا اوران پر عمل کرنا ضرری سمجھتے ہیں۔ اور مسلمان ہوتے ہوئے بھی اللہ اور رسول ﷺ کی نگاہ میں مسلمان نہیں کافر و مشرک ہیں۔
ایسے تمام لوگوں کے لئے قرآن میں اللہ تعالیٰ کا کیا حکم ہے اس کو سمجھنے کے لئے ان آیتوں پر غور و فکر کیجئے:
(۱) ………اور اگر تم نے اس علم کے بعد، جو تمہارے پاس آ چکا ہے،اُن (ظالموں)کی خواہشات کی پیروی کی، تو یقینا تمہارا شمار ظالموں میں ہوگا۔(البقرہ:۱۴۵)
نبی ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ آپ کے پاس سچا اور اصلی علم قرآنی آیات کے حوالے سے آ چکا ہے۔ اب اگر آپ نے یا آپ کے ساتھیوں اور ماننے والوں نے اپنی قوم کے گمراہ خیالات اورخواہشات کی پیروی کی تو اللہ آپ لوگوں کو ظالم قرار دے گا اور آپ لوگوں کا بھی وہی انجام ہوگا جو ظالموں کا حشر کے دن ہوگا۔
(۲) ………اور(خوب جان لو کہ)ظالموں سے اللہ ہرگز محبت نہیں کرتا۔(آل عمران:۵۷)یہاں بتایا جا رہا ہے کہ جیسے ہی کوئی فرد ظالم ہوتا ہے وہ اللہ کی محبت اور رحمت سے محروم ہو جاتا ہے۔اور جو آدمی اللہ کی محبت اور رحمت سے محروم ہو گیاتو اُسے شیطان اچک لیتا ہے اور اُس آدمی کی دنیا اور آخرت دونوں تباہ و برباد کر دیتا ہے۔
(۳) کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا اُنہیں ہدایت بخشے جنہوں نے ایمان کی نعمت پالینے کے بعد پھر کفر اختیار کیا، حالانکہ وہ خوداس بات پر گواہی دے چکے ہیں کہ یہ رسول حق پر ہے اور اُن کے پاس روشن نشانیاں بھی آ چکی ہیں ۔ اللہ ظالموں کو تو ہدایت نہیں دیاکرتا۔(آل عمران:۸۶)
یہاں کافر و مشرک کے متعلق نہیں مسلمانوں کے بارے میںکہا جارہا ہے کہ جو لوگ ایمان کی نعمت پا چکے اور چمکتی ہوئی نشانیاں دیکھ کر اس بات پر خود گواہی دے چکے کہ رسولﷺ کی ہر بات حق ہے پھر بھی رسولﷺ کی سچی پیروی کرنے کو تیار نہیں ہیں تو ایسے لوگ ظالم ہیں اور ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیتا۔اللہ جس کو ہدایت نہ دے اُس کودنیا کی کوئی طاقت ہدایت نہیں دے سکتی اور ایسے آدمی کا جہنم میں جانا یقینی ہے۔
(۴) ……کاش تم ظالموں کو اُس حالت میں دیکھ سکو جب کہ وہ سکراتِ موت میں ڈبکیاں کھا رہے ہوتے ہیں، اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ لاؤ نکالو اپنی جان، آج تمہیں اُن باتوں کے بدلے میں ذلت کا عذاب دیا جائے گا جو تم اللہ پر تہمت لگا کر ناحق بکا کرتے تھے، اور اُس کی آیات کے مقابلے میں سرکشی (بغاوت) دکھاتے تھے ۔(الانعام:۹۳)
یہاں بتایا جارہا ہے کہ کافر و مشرک اور ظالم لوگوں اور اُن کے جیسے بن جانے والے مسلمانوں کی موت کا وقت جب آتا ہے تب کاش تم اُن کی بے بسی کی حالت دیکھ سکو۔وہ مرنا نہیں چاہتے لیکن موت کے فرشتے زبردستی اُن کی روح ویسے ہی قبض کرتے ہیں جیسے کوئی آدمی اپنا مال بچانے کی کوشش کررہا ہو اور طاقت ور ہستی اُس کا مال زبردستی اُس سے چھین کے لے جارہی ہو۔اور پھر اللہ سے بغاوت کرنے والے ایسے سب لوگوں کو ذلیل کرنے والا عذاب قبر میں بھی اور جہنم میں بھی دیاجاتا رہے گا۔
(۵) ……پھر اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو اللہ کی طرف منسوب کر کے جھوٹی بات کہے تاکہ علم کے بغیر لوگوں کی غلط رہنمائی کرے۔ یقینا اللہ ایسے لوگوں کو سیدھی راہ نہیں دکھاتا۔(الانعام:۱۴۴)
یہاں اُن عالموں اور مولویوں کے متعلق کہا جارہا ہے کہ قرآن اور حدیث میں دین کی جو سچی باتیں بتائی گئی ہیں اُن کی تعلیم عام لوگوں کو نہیں پہنچا کر اپنی من گھڑت باتوں کو دین کی باتیںبتا کراُن کی پیروی کرانے والوں کو گمرا ہ کرنے کا انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی دوسرے کو کیا سیدھی راہ دکھائیں گے اللہ خود اُن کو سیدھے راستے پر چلنے سے محروم کر دیتا ہے۔ظاہر میں یہ لوگ عالم اور فاضل سمجھے جاتے ہیں لیکن اللہ کے نزدیک دراصل شیطان کے ساتھی ہوتے ہیں۔
(۶) کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کرنے کو اُس شخص کے کام کے برابر ٹھہرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور جس نے جاں فشانی کی اللہ کی راہ میں،اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔(التوبہ:۱۹)
دین کے نام پر نماز، روزے اور حج کا دکھاوا کرنا ویسا ہی ہے جیسے ایک آدمی ٹھنڈے ٹھنڈے آرام سے حاجیوں کو پانی پلا رہا ہے یا خانہ کعبہ کی خدمت میں لگا ہوا ہے۔ایسا آدمی اللہ کے نزدیک اُس آدمی جیسا نہیں ہو سکتا جو اپنی جان سے اور مال سے اللہ کی راہ میں دن رات جہاد میں لگا ہوا ہے۔دکھاوا کرنے والا مشرک بن کر ہدایت سے محروم ہو جاتا ہے۔
(۷) پھر تمہارا کیا خیال ہے کہ بہتر انسان وہ ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد خدا کے خوف اور اُس کی رضا کی طلب پر رکھی ہو یا وہ جس نے اپنی عمارت ایک وادی کی کھوکھلی نہیں ٹھہرنے والی کگار پر اٹھائی اور وہ اُسے لے کر سیدھی جہنم کی آگ میں جا گری ؟ ایسے ظالم لوگوں کو اللہ کبھی سیدھی راہ نہیں دکھاتا۔(التوبہ:۱۰۹)
دنیا میں ہر آدمی اپنی رہائشی عمارت بناتا ہے۔ایک آدمی کا محل پکی زمین پر ہے جہاں اُس کے گرنے کا کوئی ڈر نہیں اور ایک آدمی دریا کے کنارے پانی سے کٹنے والی زمین پرمکان بنا رہا ہے، جو سیلاب کے پانی سے ملیا میٹ ہو جائے گا۔ جو لوگ اللہ کی رضا ، خوشنودی اور فرماں برداری کی زندگی گزار رہے ہیں وہ اپنی پکی مستحکم مظبوط عمارت بنا رہے ہیں اور جو لوگ اللہ کو بھول کر دنیا داری میں لگے ہوئے ہیں اُن کا سارا کام دریا کے کگار پر مکان بنانے جیسا ہے جس کو ایک نہ ایک دن برباد ہو ہی جانا ہے۔
(۸) حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا، لوگ خود اپنے اوپر اظلم کرتے ہیں۔ (آج یہ دنیا کی زندگی میں مست ہیں) اور جس روز اللہ ان کو اکٹھا کرے گاتو (یہی دنیا کی زندگی انہیں ایسی محسوس ہوگی) جیسے یہ صرف ایک گھڑی بھر آپس میں جان پہچان کرنے کو ٹھہرے تھے(اُس وقت ثابت ہو جائے گا کہ) اصل میں سخت گھاٹے میں رہے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا اور ہرگز وہ سیدھی راہ پر نہ تھے۔ (یونس:۴۴/۴۵)
دنیا کی زندگی میںانسان آخرت کو بھولا ہوا ہے۔اور شیطان اُس کو بھلا وے میں ڈالے ہوئے ہے۔نادان انسان سمجھ رہا ہے کہ جیسے اُس کو موت آنی ہی نہیں ہے۔قیامت تک جینے کے منصوبے بنا رہا ہے اور زمین پر ہی شداد کی طرح اپنی جنت بنانے میں لگا ہوا ہے۔لیکن جب موت اُس کو اپنے پنجے میں کس کر دنیا سے لے جائے گی اور قیامت برپا ہونے کے بعد جب اُس کو اپنی ہمیشہ ہمیشہ کی جہنم والی زندگی کا سامنا ہوگا تب اُس کی سمجھ میں آئے گاکہ اس آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کتنی چھوٹی اور مختصر تھی۔اُس وقت یہ سوچے گا کہ کاش میں نے اس حقیقت کو سمجھا ہوتا تو آ ج یہ انجام نہ دیکھنا پڑتا۔لیکن اُ س وقت اُس کا ایسا سوچنا اُس کو کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ کاش دنیا میں ہی اس ناسمجھ اور نادان انسان کو عقل اور ہوش آ جائے۔
(۹) اور جب فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا،حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کئے تھے وہ سب سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کئے ان میں سے کوئی بھی پورا نہ کیا۔ میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں، میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تم کو دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا،اب مجھے ملامت نہ کرو اپنے آپ ہی کو ملامت کرو،یہاں نہ میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میری۔ اس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں شریک بنا رکھا تھا،میں اُس سے بری الذمہ ہوں۔ایسے ظالموں کے لیے تو دردناک سزا یقینی ہے۔(ابراہیم:۲۲)
پھر شیطان بھی اقرار کر لے گا کہ اُس نے انسانوں کو بہکایا تھا۔ ہمدرد بن کر دشمنی کرتا رہاتھا۔وہ مان لے گا کہ ہم نے تم لوگوں کو گمراہ کر کے تباہ و برباد کر دیا اور اپنا کوئی وعدہ پورا نہ کیا۔لیکن یہ بھی تو سوچو کہ کیا میں نے تمہارے ساتھ کوئی زبردستی کی تھی۔میں نے تو صرف اشارہ کیا تھا،خود تمہارے دل میں گناہ کرنے کا شوق اور چور تھا۔ میری تحریک پاکر تم دوڑے ہوئے میرے راستے پر چلے آئے۔اللہ وحدہٗ لاشریک کی جگہ جھوٹے معبودوں کو خدا بنا کراُن کی خوشنودی حاصل کرنے میں لگے رہے۔اب مجھ کو ملامت نہ کرو اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔تم خود ظالم تھے اس لئے اب اپنے ظلم کی سزا بھگتو۔
کاش قرآن کی ان آیتوں کو پڑھ کر لوگ دنیا اور آخرت کی حقیقت کو سمجھیں،ظلم اور زیادتی کی راہ چھوڑ کر نیکی کے راستے پر چلنے کا ارادہ کریں، اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور نیکی کرنے کی توفیق کی دعائیں کریں۔پکا ارادہ کریں کہ ا ب شیطان کے بہکاوے میں نہیں آئیں گی۔دل کے شوق پور ے کرنے میں زندگی کے بچے ہوئے لمحوں کو برباد نہیں کریں گے، تو یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دے گا۔اب جو نیک عمل وہ کریں گے اُن کا اجر اتنا زیادہ دے گا کہ پچھلے گناہ بھی کم پڑ جائیں گے اور اُن توبہ کرنے اور سدھر جانے والوں کی نیکیاں اُنہیں جنت الفردوس کا حق دار بنا دیں گی۔