اب اشوک گہلوت کا کیا ہوگا ؟

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 29th Sept.

یہ طے ہو گیا ہے کہ راجستھان کے وزیر اعلی اشوک گہلوت کانگریس صدر کے عہدے کے لیے ہونے والے انتخاب میں حصہ نہیںلیں گے۔ اس فیصلے کا اعلان خود اشوک گہلوت نے ہی کیا ہے۔ کانگریس کی ورکنگ صدر سونیا گاندھی سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے گہلوت نے جمعرات کو کہا کہ ماضی میں راجستھان میں جو کچھ ہوا اس کے لئے ریاست کے وزیر اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے میں بذات خود ذمہ دار ہوں۔چنانچہ میںنے کانگریس صدر کے عہدے کے لیے انتخاب نہیں لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔حالانکہ یہ بات ابھی کھل کر سامنے نہیں آئی ہے کہ یہ فیصلہ خود ان کا ہے یا سونیا گاندھی کے فیصلے کو وہ خود بیان کر رہے ہیں۔لیکن یہ مانا جا رہا ہے کہ اس فیصلے کے ساتھ ہی قیاس آرائیوں کا دور ختم ہو گیا ہے اور یہ تقریباً طے ہے کہ گاندھی خاندان نےگہلوت کے بجائے سینئر کانگریس رہنما اور مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ دگ وجے سنگھ کا انتخاب کیا ہے۔ دگ وجے سنگھ نے آناََ فا ناََ دہلی پہنچ کر صدارتی انتخاب لڑنے کا اعلان بھی کیا ہے۔
موجودہ صورتحال میں اب یہ سوال ہواؤں میں گشت کر رہا ہے کہ کیا اشوک گہلوت کے رویہ سے ناراض پارٹی اعلیٰ کمان ان کو راجستھان کے وزیر اعلیٰ کی کرسی سے بھی برطرف کر دے گی؟ جب گہلوت سے بھی اس طرح کاسوال پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس کا فیصلہ اعلیٰ کمان کرے گی۔ جب گہلوت دہلی میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے تو انہوں نے یہ بھی کہا کہ جے پور میں چند دن قبل جو کچھ بھی ہوا اس پر وہ شرمندہ ہیں اور اس کے لیے سونیا گاندھی سے معافی بھی مانگ چکے ہیں۔ لیکن کیا سونیا نے انھیں معاف کر دیا ہے؟ اس سوال کا جواب ابھی صیغۂ راز میں ہے۔اس وجہ سے ابھی یہ معمہ ہی بنا ہوا ہے کہ اشوک گہلوت راجستھان کے وزیر اعلیٰ رہیں گے یا صدر کے عہدے کی امیدواری کے ساتھ یہ عہدہ بھی ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اشوک گہلوت نے تو اپنی زبان سے ایسا کچھ نہیں کہا ہے لیکن جب وہ سونیا گاندھی سے ملنے کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے تب ان کے چہرے پر پریشانی کے آثار صاف نظر آرہے تھے۔
واضح ہو کہ گزشتہ اتوار کی شام کانگریس لیجسلیچر پارٹی (سی ایل پی) کی میٹنگ صرف راجستھان کے اگلے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے ہونی تھی۔چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اعلیٰ کمان نے راجستھان میں وزیر اعلیٰ کو تبدیل کرنے کا ذہن بنا لیا تھا۔ اگر یہ فیصلہ ابھی بھی بر قرار رہتا ہے تو راجستھان کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر نظر گڑائے سچن پائلٹ کی لاٹری لگ سکتی ہے۔مگر ابھی کانگریس جس حالات سے گزر رہی ہے ، اس میں پورے اعتماد کے ساتھ یکایک کوئی بڑا فیصلہ لینا کانگریس اعلیٰ کمان کے لئے آسان کام نہیں ہے۔کیونکہ ایک طرف اشوک گہلوت کی حمایت میں 90 سے زیادہ ایم ایل ایز کے کھڑے ہونے کی بات کہی جا رہی ہے تو دوسری طرف سچن پائلٹ ہیں، جواعلیٰ کمان کی جانب بڑی امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ایسے میں راجستھان کے مستقبل کے مد نظر کانگریس اعلیٰ کمان کو دانشمندی سے کام لینا ہوگا۔بصورت دیگر راجستھان کانگریس کو ٹوٹنے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔اور یہ بات گاندھی خاندان کو اچھی طرح سے معلوم ہے۔ ویسے بیشتر سیاسی مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ جس دن گاندھی خاندان اشوک گہلوت کو راجستھان کے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹا کر کسی دوسرے لیڈر کو وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ لے لیگا، اسی دن اشوک گہلوت کی طاقت کم ہو جائے گی توحامی ایم ایل یز کا ایک بڑا گروپ اپنا رخ بدل لے گا اور گہلوت کے ساتھ دس بیس سے زیادہ ایم ایل ایز نہیں رہ جائیں گے۔
قابل کر ہے کہ گزشتہ اتوار کی شام راجستھان کانگریس لیجسلیچر پارٹی (سی ایل پی) کی میٹنگ بلائی گئی تھی۔ اس میٹنگ میں ایم ایل ایز سے یہ رائے لی جانی تھی کہ جب اشوک گہلوت کانگریس کے قومی صدر کے طور پر دہلی جائیں گے تو راجستھان کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میںسونپی جائے گی۔ اس کے لیے مرکزی قیادت نے راجیہ سبھا ایم پی اور پارٹی کے سینئر لیڈر ملکاارجن کھڑگے کے ساتھ ساتھ راجستھان کے انچارج اجے ماکن کو جے پور بھیجا تھا۔ اشوک گہلوت کے مطابق، وہ چیف منسٹر کی رہائش گاہ پر ون ٹو ون اور پھر تمام ایم ایل ایز کے ساتھ اجتماعی میٹنگ کرنے والے تھے۔ لیکن گہلوت کیمپ کے ایم ایل ایز نے غیر متوقع طور پر بغاوت کا جھنڈا بلند کرکے سب کو حیران کر دیا۔ گہلوت کیمپ کے 90 سے زیادہ ایم ایل ایز نے راتوں رات اسپیکر سی پی جوشی کو استعفیٰ پیش کر دیا۔ ایم ایل ایز کے اس رویے کی وجہ سے راجستھان کانگریس کا انتشارسامنے آگیا۔اس سے پارٹی کی جگ ہنسائی بھی ہوئی اور کافی پریشانی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ تبھی سے یہ قیاس آرائی ہونے لگی تھی کہ اب گاندھی خاندان اشوک گہلوت کی جگہ کسی اور چہرے کی تلاش کرے گا، جسے پارٹی صدر بنایا جا سکتا ہے۔ چونکہ اشوک گہلوت نے ایم ایل ایز کے رویہ پر کوئی بیان نہیں دیا اور نہ ہی انہوں نے سی ایل پی میٹنگ میں کسی کو تنقید کا نشانہ بنایا، اس لیے یہ مانا جا رہا ہے کہ مرکزی قیادت نے اس کے لیے اشوک گہلوت کو ہی مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ جب اشوک گہلوت کل سونیا گاندھی سےمل کر باہر آئے تو ان کے چہرےپر کانگریس اعلیٰ کمان کی ناراضگی صاف نظر آرہی تھی۔ایسے میں یہ کہنامشکل ہے کہ اب اشوک گہلوت کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا اور حتمی طور پر اس سے پارٹی کی صحت پر کیا اثر پڑے گا۔
************************