اسلامی ممالک خود اسلام پر عمل پیرا نہیں

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 27th Sept.

جارجیا واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسرحسین عسکری نے گزشتہ دنوں ایک ریسرچ کی جس کا عنوان تھا ’’ اسلامی ممالک خود کتنے اسلامی ہیں؟‘‘۔ اس ریسرچ سے پتہ چلا کہ جن ممالک میں اسلامی اصولوں کو روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنایا جاتا ہے وہ روایتی طور پر مسلم نہیں ہیں۔نیوزی لینڈ اس فہرست میں سر فہرست رہا جبکہ لگژمبرگ دوسرے نمبر پر تھا جبکہ آئر لینڈ تیسرے۔ آئیس لینڈ چوتھے ‘ فن لینڈ پانچویں ‘ڈ نمارک چھٹے ‘ کناڈا ساتویں‘ جاپان آٹھویں، ملیشیا 38 ویں ‘ کویت 48 ویں‘ بحرین 64 ویں نمبر پر رہا اور سب سے حیرت کی بات یہ رہی کہ سعودی عرب اس فہرست میں 131 ویں نمبر پر رہا۔ یہ اسٹڈی گلوبل معاشی جرنل میں شائع کی گی ہے اور اس سے ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کو ایک جھٹکا لگے لیکن جب ہم اپنے اطراف کا جائزہ لیں اور حقائق کو دیکھیں تو ہمیںپتہ چلتا ہے کہ اس اسٹڈی کے نتائج درست اور حقیقی ہی ہیں۔
بحیثیت مسلمان ہم صرف مذہبی ذمہ داریوں کی تکمیل جیسے فرائض ‘ سنت نماز ‘ روزہ ‘ نقاب ‘ داڑھی وغیرہ اور قرآن و حدیث پڑھنے پرہی اکتفا کرتے ہیں لیکن ہم ان پر عمل نہیں کرتے۔ ہم مذہبی بیانات اور خطبات دوسروں کی بہ نسبت زیادہ سنتے ہیں لیکن ہم اس کے باوجود بہترین قوم نہیں ہیں۔ہم نے تقریباً ہزاروں خطبات جمعہ کی سماعت کی ہے۔ ایک چینی تاجر کا کہنا ہے کہ مسلمان تاجر میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فرضی اور جعلی لیبل لگادو اور ان کی اشیا پر فرضی برانڈ کا نام چسپاں کر دو۔ جب میں نے انہیں کھانے پر مدعو کیا تو انہوں نے وہ غذا کھانے سے انکار کردیا جو حلال نہیں تھی۔ تو کیا ان لوگوں کیلئے نقلی سامان بیچنا حلال ہے ؟۔ ایک جاپانی مسلمان نے کہا کہ میں نے مغربی ممالک کا دورہ کیا اور دیکھا کہ اسلام وہاں عملا اختیار کیا جاتا ہے اور غیر مسلموں کی روز مرہ کی زندگی میں اس کا اثر ہے۔ میں نے مشرق کا سفر بھی کیا لیکن وہاں مسلمانوں میں اسلام نہیں دیکھا۔ میں اللہ کا شکر گذار ہوں کہ میں یہ جاننے سے پہلے مسلمان ہوگیا کہ مسلمان کیسا عمل کرتے ہیں۔
مذہب کو صرف نماز اور روزہ تک محدود نہیں کیا جانا چاہئے۔ یہ ہمارا طرز زندگی ہونا چاہئے اور یہ بات اہمیت رکھتی ہے کہ ہم دوسروں سے کس طرح پیش آتے ہیں۔ مذہبی فرائض کی تکمیل کرنا آپ تک محدود ہے۔ یہ آپ کے اور اللہ کے درمیان کا معاملہ ہے۔ تاہم اچھے اخلاق وہ چیز ہیں جو آپ کے اور دوسرے لوگوں کے درمیان ہوتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اگر ہم اسلامی اقدار کو اپنی زندگیوں کا حصہ نہیں بناتے اور ان پر عمل نہیں کرتے تو پھر معاشرہ میں برائیاں پھیل جائیں گی اور ہمارا مستقبل روشن نہیںرہیگا۔ ہمیں کسی بھی شخص کو یہ دیکھ کر کوئی رائے قائم نہیں کرنی چاہئے کہ وہ اپنے فرائض کیسے ادا کرتا ہے کیونکہ یہ محض دکھاوا ہوسکتا ہے۔
ایک حدیث شریف کا مفہوم یہ ہے کہ میری امت میں سب سے برے وہ ہونگے جو قیامت کے دن تو اپنی نمازوں اور روزوں اور خیرات کے ساتھ آئیں گے لیکن یہ لوگ دوسروں کی توہین کرنے والے ہونگے ‘ دولت جمع کرنے والے ہونگے اور دوسروں کو تکلیف دینے والے ہونگے۔میں سمجھتا ہوں کہ اسلام ایمان اور احسان کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ ہمیں دوسروں کو بھی سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ برنارڈ شاہ نے ایک موقع پر کہا تھا کہ ’ اسلام ایک بہترین مذہب ہے لیکن مسلمان بدترین قوم ہیں‘۔
قرآن کی تعلیمات کا جہاں تک سوال ہے اسلامی ممالک سے زیادہ مغربی ممالک میں اس پر عمل ہوتا ہے۔جو اسٹڈی سامنے آئی ہے اس کے مطابق حالانکہ مغربی ممالک کا مذہب کچھ اور ہے لیکن یہ لوگ اپنی سیاست ‘ تجارت ‘ قانون اور سماج میں خود اپنے مذہب کی اقدار کو رائج نہیں کرتے بلکہ عملا اسلامی تعلیمات کو ترجیح دیتے ہیں۔