توبہ و استغفار کی اہمیت

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 10th Sept

محمد اختر عادل گیلانی

عموماً توبہ و استغفار ایک ہی معنی و مفہوم میں بولے جاتے ہیں، حالانکہ قرآن و احادیث میں دونوں الگ الگ معنی و مفہوم میں استعمال ہوئے ہیں۔ ترتیب کے برعکس پہلے استغفار کے معنی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ استغفار کے معنی ہیں مغفرت(بخشائش)طلب کرنا، جس کے معنی ڈھانپنے اور چھپانے کے ہیں۔ عربی میں مِغفَر اس فوجی ٹوپی کو کہتے ہیں جو لوہے کی ہوتی ہے جس سے سر اور چہرہ گردن تک چھپ جاتا ہے اور صرف آنکھیں کھلی رہتی ہیں۔
انسان خطا و نسیان کا مجموعہ ہے اور اس سے گناہوں کا ارتکاب ہو جانا کوئی بعید نہیں ہے۔اس سے صرف انبیاء کرام علیہم السلام کی ذات مستثنیٰ ہے۔ گنہگار اور اس کا احساس رکھنے والا بندہ اللہ تعالیٰ سے التجا اور دعا کرتا ہے کہ اے میرے رب! مجھے معاف کردے ،میرے گناہ بخش دے اور ان پر پردہ ڈال دے، اسی دعا اور التجا کا نام استغفار ہے۔ اللہ کے نیک اور پسندیدہ بندے وہ ہیں جن سے اگر کوئی خطا ہو جاتی ہے تو وہ اس پر شرمندہ ہوتے اور فوراً اللہ کی طرف رجوع کر کے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لیتے ہیں۔ اللہ کے یہاں معافی صرف ایسے ہی بندوں کے لیے ہےجو قصداً نہیں بلکہ اللہ کی راہ پر چلتے ہوئے انسانی کمزوری کی بنا پر اتفاقیہ طور پر ان سے گناہ سرزد ہو جاتے ہیں، اور جیسے ہی انہیں غلطی کا احساس ہوتا ہے اپنے قصور کی معافی مانگ لیتے ہیں۔لیکن جب انسان گناہ پر گناہ کیے چلا جاتا ہے اور اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی نہیں مانگتا ہے تو اس کا قلب سیاہ ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے اس کا تعلق کمزور پڑ جاتا ہے۔ اب یہ گناہ صرف استغفار سے نہیں دھلتے بلکہ اس کے لئے توبہ ہی نہیں توبتہ النصوح کی ضرورت پڑتی ہے۔
توبہ: توبہ کے اصل معنی رجوع کرنے اور پلٹنے کے ہیں۔ جس طرح ایمان لاکر آدمی، اللہ کی اطاعت کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے، اسی طرح اگر کبھی اس سے اطاعت کے خلاف قصداً اور ارادتاً کوئی کام ہو جاتا ہے تو وہ گناہ بن جاتا ہے، لیکن جیسے ہی بندے کو گناہ کااحساس ہوتا ہے وہ فوراً اللہ کی طرف پلٹ آتا ہے، اسی کا نام توبہ ہے۔ یعنی بندہ نا فرمانی اور سرکشی و بغاوت سے شرمندہ ہو کر رب کی بندگی اور اطاعت و فرمانبرداری کی طرف پلٹ آئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: “اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے توبہ کرو، خالص توبہ”(التحریم:٨) خالص توبہ کے معنی ہیں پھٹے کپڑے کو سینا ، گندگی کو دور کرنا، گناہ سے اس کے دین میں جو شگاف پڑگیا ہے اس کو پاٹنا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ کا ارشاد ہے: ” اس(توبہ)سے مراد یہ ہے کہ جب تم سے کوئی قصور ہوجائے تو اپنے گناہ پر نادم ہو، پھر شرمندگی کے ساتھ اس پر اللہ سے استغفار کرو اور آئندہ کبھی اس فعل کا ارتکاب نہ کرو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول ہے” توبہ کے بعد آدمی گناہ کا اعادہ تو درکنار ، اس کے ارتکاب کا ارادہ تک نہ کرے یعنی اللہ کے حقوق کی پامالی کرنے پر سچی توبہ یہ ہے کہ گناہ پر بندہ شرمندہ ہو، اللہ سے صدق دل سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے اور اس وقت دوبارہ نہ کرنے کا عہد کرے یہ تو ہوئے حقوق اللہ سے متعلق گناہوں کی توبہ اصل مسئلہ تو حقوق العباد سے متعلق ہے۔ جیسا کہ سب کے علم میں ہے کہ حقوق العباد کے سلسلے میں جو گناہ ہو جائے وہ صرف اللہ سے معافی مانگنے سے معاف نہیں ہو تے، جب تک کہ بندہ نہ معاف کردے مثلاً کسی کی زمین اور روپیہ ہڑپ لیا، کسی کا کھیت اور باغ اجاڑ دیا، مال لوٹ لیا، دولت چھین لی، کسی کو گالی دی، غیبت کی یا چغلی کھائی ہے تو یہ وہ گناہ ہیں جن کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہے اس لیے حقوق العباد سے متعلق توبہ میں متذکرہ شرائط کے علاوہ ان باتوں کا ہونا بھی ضروری ہے مثلاً: جس کا حق مارا ہو اس کو واپس کرنا اور جس کسی کو تکلیف پہنچائی ہو اس سے معاف کرانا ساتھ ہی توبہ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ توبہ کے بعد زندگی میں اصلاح کی جھلک نظر آئے توبہ اس چیز کا نام بھی نہیں ہے کہ انسان صرف زبان سے اللہ توبہ، اللہ توبہکی رَٹ لگائے، گال تھپتھپائے یا کان پکڑے توبہ کرکے بار بار اسے توڑتے چلے جانا اور اسی گناہ کو دوبارہ کرنا، توبہ نہیں، توبہ کا مذاق اڑانا ہے سچی توبہ کے بعد بار بار توبہ کے اعادہ کی ضرورت نہیں، البتہ اگر اس گناہ کو یاد کرکے نفس لذت محسوس کرے تو توبہ کا اعادہ ضروری ہے
توبہ کے سلسلے میں یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ توبہ ان کے لیے نہیں ہے جو اپنے خدا سے بے خوف اور بے پروا ہو کر تمام عمر گناہ پر گناہ کیے چلے جاتے ہیں، انہیں گناہ کا احساس تک نہیں ہوتا اور آئندہ پر ٹالتے رہتے ہیںگناہ چھوٹا ہو یا بڑا، اس کی معافی میں دیر نہیں کرنی چاہیے کہ نہ جانے کس وقت مہلتِ عمل ختم ہو جائےاللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ” ہاں یہ جان لو کہ اللہ پر توبہ کی قبولیت کا حق انھیں لوگوں کے لیے ہےجو نادانی کی وجہ سے کوئی برا فعل کر گزرتے ہیں اور اس کے بعد جلد ہی توبہ کرلیتے ہیں۔۔۔۔۔۔مگر توبہ ان لوگوں کے لیے نہیں ہے جو برے کام کیے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے اس وقت وہ کہتا ہے کہ اب میں نے توبہ کی(النساء:١٧١٨)
اگر انسان سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اسے مایوس نہیں ہونا چاہیے، بلکہ فوراً توبہ کرنی چاہیےاللہ کے یہاں معافی کا دروازہ ہمیشہ اور ہر وقت کھلا ہے” اللہ تعالیٰ رات میں ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کا گنہگار توبہ کرلے اور دن میں ہاتھ پھیلاتا ہے کہ رات کا گنہگار توبہ کر لے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
پھر جو ظلم کرنے کے بعد توبہ کرے اور اپنی اصلاح کر لے تو اللہ کی نظرِ عنایت پھر اس پر مائل ہو جائے گی، اللہ بہت درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے(المائدہ:٣٩)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزآنہ ستر اور سو بار استغفار و توبہ کرتے تھے۔ فرمایا: “اللہ کی قسم، یقیناَ میں اللہ سے استغفار کرتا ہوں، اور اس کی طرف پلٹتا(توبہ کرتا) ہوں روزآنہ ستر بار سے زیادہ(بُخاری) اے لوگو! اللہ کی طرف پلٹو(توبہ کرو)اور اس سے مغفرت چاہو، کیونکہ میں روزآنہ سو بار توبہ کرتا ہوں(مُسلم)
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنی کثرت سے استغفار و توبہ کرنے کی ضرورت کیوں پڑی جبکہ آپ کے اگلے اور پچھلے سارے گناہ معاف ہو گئے تھے؟ اصل بات یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ذریعے اپنی امت کو تاکیدی حکم دیا کہ وہ بھی استغفار و توبہ سے غافل اور بے پروا نہ رہیں بلکہ فوراً ہی اللہ سے گناہوں کی معافی مانگ لیں ستر اور سو سے مراد کثرتِ تعداد ہے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس نے صدق دل سے توبہ کی اور اس پر قائم رہا وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔ یہ بشارت ہم جیسے گنہگاروں کے لئے امید کی کرن اور راحتِ جاں ہے اللہ تعالیٰ ہمیں زیادہ سے زیادہ استغفار اور توبہ کر نے اور اس پر قائم رہ کر مومنانہ زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے آمین!!
رابطہ:9852039746