خانقاہوں سے طریقت تو طریقت شریعت بھی گئی

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 27th Sept.

بےنام گیلانی
جب لفظ ’’خانقاہ‘‘سماعت سے گزرتا ہے تو معلوم نہیں کیوں انسان کا ذہن کم و بیش 800 سال قبل کے عہد میں پہنچ کر ایک منفرد احساس سے سرشار ہو جاتا ہے۔تصورات کی دنیا میں عجب عجب مناظر رقص کرنے لگتے ہیں۔موجودات سے خالق الکل کے رشتے کی حقیقی و سچی اور پکی تصویر ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔پیر و مرشد کا تصور نہیں ہلکہ اس کی حقیقی صورت نظر آنے لگتی ہے۔یقین و عتماد کا سایہ ساتھ ساتھ چلنے لگتا ہے۔ایثار و قربانی کے جذبوں کا گلستان مہک اٹھتا ہے ۔ایک حسین رہبری و موثر پیمبری کے چراغ روشن ہو جاتے ہیں۔غرضکہ انسان اور خالق انسان کے درمیان جتنے بھی پردے ہوتے ہیں وہ یکا یک چاک ہو جاتے ہیں اور پھر معرفت و سلوک کا خورشید درخشاں کی منور شعائیں حیات انسانی پر محیط ہو جاتی ہیں۔انسان یہ سوچنے کو مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ خانقاہوں میں بیٹھے کیسے لوگ تھے جن کے بس میں نفس ہوا کرتا تھا ۔خواہشات کا دیو شکست خوردہ ہوکر وہاں سے فرار ہونے کو مجبور ہو جایا کرتا تھا۔رضائے الٰہی کے لئے لوگ تخت و تاج کو ٹھکرا کر فقیری اختیار کر لیتے تھے۔ان کی نگاہوں میں دنیا کی نہ کوئی اہمیت تھی اور نہ ہی کوئی وقعت۔
عہد حاضر میں جب نگاہ عمیق سے خانقاہوں کا جائزہ لیتا ہوں تو نگاہیں خیرہ رہ جاتی ہیں۔ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ بیشتر خانقاہوں سے خانقاہی اوصاف حمیدہ رخصت ہو چکے ہیں۔اب خانقاہوں کے قیام کے جو اغراض و مقاصد تھے وہ فوت ہو چکے ہیں۔۔اب خانقاہوں میں نہ جذبہء خدمت محفوظ ہے اور نہ ہی قدیم خانقاہی روایت۔روحانت،طریقت اور سلوک کی تو خوشبو بھی باقی نہیں ہے۔طریقت گئی سو گئی وہاں سے تو شریعت بھی رخصت ہو چکی ہے ۔وہاں اگر کچھ نظر آتا ہے تو وہ ہے صرف اور صرف احساس برتری اور ملت اسلامیہ کی رہبری کا بیجا زعم۔احساس برتری نے خانقاہوں کی رونق کو فنا کے گھاٹ اتار دیا ہے۔چہار دیواری تو موجود ہے لیکن وہاں کی حقیقی دلکشی کا کہیں نام و نشان بھی نہیں ہے۔ناچیز سنگ مرمر بچھے فرش اور ٹائلس لگی دیواروں کی دلکشی کا ذکر خیر نہیں کر رہا ہے۔بلکہ خانقاہ میں بسی روحانیت اور اوراد و اذکار کا ذکر خیر کر رہا ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے جتنے اوصاف حمیدہ سے خانقاہوں کو نوازہ تھا وہ سارے کے سارے اس نے چھین لئے ہیں۔ان اوصاف حمیدہ کے عوض محض تکبر اور خود عنانیت کا دام فریب اور ذلت و رسوائی کا تحفہ عطا کر دیا ہے ۔لیکن صد حیف اہل خانقاہ کو اس امر کا احساس ہی نہیں ہے۔اس بے حسی کا سبب بھی بیجا زعم اور احساس برتری ہی ہے۔یہی زعم و احساس برتری انہیں اپنی قدیم روایات سے دور رکھے ہے اور خود عنانیت کا خوگر بنائے ہے۔عہد حاضر میں درون خانقاہ کیا عمل پزیر ہو رہا ہے۔اس کا بہت ہی عمیق نگاہی کے ساتھ جائزہ لینے کی اشد ضرورت در پیش ہے۔خانقاہیں جنہیں اسلام کے قلعے ہونے کا افتخار حاصل تھا آج وہاں اسلامی احکامات و شعار کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔اپنے اس کریح عمل پر خانقاہوں میں موجود خود ساختہ صوفیاء نازاں و شاداں نظر آتےہیں ۔اپنے بیجا احساس برتری کے باعث وہ کسی انسان کو اپنے مساوی یا برتر تصور کرنے سے قاصر ہیں۔خواہ وہ شخص کتنا ہی پاکباز و شریعت کا پابند کیوں نہ ہو۔ان خود ساختہ صوفیاء کو شاید یہ ہرگز علم نہیں ہے کہ ایسے ہی فکر و عمل کو بابصیرت افراد تکبر سے موسوم کرتے ہیں۔دنیا میں ایسی کتنی ہی روایتیں موجود ہیں کہ اس رب العزت نے کتنے ہی بلند قد عالم و عامل خصوصاً صوفیاء کی گرفت فرما دی۔ کیونکہ تکبر و احساس برتری اللہ عز و جل کی نگاہوں میں نہایت ہی نا پسندیدہ عمل ہے۔ایسی کتنی ہی روایات ارض ہستی پر موجود ہیں کہ اس رب العزت نے بڑے سے بڑے بلند قد عالم و عامل و صوفیاء کا محض تکبر کی بنیاد پر منصب و مرتبہ ختم کر دیا ۔پھر انہیں ایسی پستی عطا فرمائی کہ آہ و زاری میں ہی ان کی بقیہ زندگی گزر گئی۔اس کے باوجود انہیں معافی یا بخشائش نصیب نہیں ہوئی۔یا اگر معافی و بخشائش نصیب بھی ہوئی تو عمر گزر جانے کے بعد۔ماضی میں خانقاہیں جو تقویٰ کے لئے مشہور تھیں ۔معاصر دور میں گندی سیاست اور لوٹ کھسوٹ کا مرکز ہو کر رہ گئی ہیں۔جبکہ یہ ماضی میں دین اسلام کی محافظ و مبلغ ہوا کرتی تھیں۔
ماضی کی خانقاہوں کے محض تصور سے دل باغ باغ ہو جایا کرتا تھا ۔جیسے ہی انسان خانقاہوں میں قدم رکھتا تھا ، دل کی کیفیت ہی تبدیل ہو جایا کرتی تھی۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انوار کی بارش ہو رہی ہے۔ایک عجب روحانیت کا احساس جاگزیں ہو جایا کرتا تھا۔واقعی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ناچیز جہاں ہے وہ مقام رب کائنات کی ذاتِ مبارکہ کے بہت قریب ہے۔لیکن معاصر دور میں عین اس کے برعکس محسوس ہوتا ہے۔پہلے اگر گمراہ انسان خانقاہوں میں داخل ہوتا تھا تو اس کے طور طریقے میں از خود تبدیلی رونما ہو جاتی تھی۔وہ شیطان صفت انسان صوفیوں کے درمیان رہ کر خود صوفی ہو جاتا تھا۔لیکن آج خانقاہوں کے ماحول میں رہ کر اچھے انسان کو بھی گمراہ ہو جانے کا اندیشہ غالب ہو جاتا ہے۔اس کا خاص سبب اہل خانقاہ کی مادیت پسندی ہے ۔قدیم صوفیا جس دنیا داری سے پناہ چاہتے تھے آج کے نام نہاد صوفیا اسی دنیاداری کے پیچھے بے تحاشہ دوڑے چلے جاتے ہیں۔کبھی ضمیر کا سودا کرنا ہوتا ہے کبھی اخلاقیات کا جنازہ اٹھانا ہوتا ہے اور کبھی کبھی تو کفر و شرک کے دلدل میں بھی دھنسنا ہوتا ہے۔لیکن ان مفاد پرست نام نہاد صوفیا کو اس امر سے کوئی غرض نہیں کہ ان کے اس کریح عمل کا اثر اسلام اور اہل اسلام پر کیا مرتب ہو رہا ہے۔جس خانقاہ کے بانی صوفیا کرام کے شب و روز بورئے پر گزرے ان کی اولادوں کو گھر کا فرش بھی سنگ مر مر کا چاہئے۔جن صوفیا کو فقر پر افتخار تھا ان کی اولادوں کو بریانی اور مرغ و ماہی بھی کم ترین نظر آرہے ہیں۔لیکن انہیں اس امر کا احساس نہیں ہے کہ ان کے اس عمل سے صوفیت کو نقصان عظیم ہو رہا ہے۔مسلک صوفیت کی بدنامی ہو رہی ہے۔عوم کے دلوں میں جو خانقاہوں اور صوفیا کی قدر تھی وہ ان کے اعمال و کردار کے باعث زوال پزیر ہو رہی ہے۔عوام میں جو خانقاہوں کے تئیں عقیدت تھی اس کا جنازہ اٹھ رہا ہے۔سب سے اہم امر یہ ہے کہ ان کے ایسے اعمال و کردار کے باعث اسلام کمزور ہوتا جا رہا ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ پہلے زمانے میں غیر مسلم مسلمانوں خصوصاً صوفیا کرام کے کردار،اعمال،رواداری،مذہبی مساوات،انسانی ہمدردی اور بھائی چارہ وغیرہ دیکھ کر بہت متاثر ہوتے تھے اور پھر جوق در جوق دائرہء اسلام میں داخل ہوتے چلے جاتے تھے۔اس ناچیز نے کئی مضامین میں اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ اسلام کے فروغ میں صوفیا اور خانقاہوں کا اہم کردار رہا ہے ۔لیکن آج کے پس منظر میں اگر جائزہ لیا جائے تو اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی میں ان کا کلیدی کردار نظر ائےگا۔احقر ایسا کہنے کو مجبور کیوں ہوا ۔اس کا کوئی نہ کوئی سبب تو ضرور ہوگا۔وہ سبب یہ ہے کہ پہلے اگر صوفیا کے پاس کوئی مریض یا مصیبت کا مارا آتا تھا تو صوفیا دم کر دیتے تھے اور اس دم سے بڑے بڑے امراض سے مریض کو شفاء حاصل ہوجاتی تھی۔صوفیا یہ نیک عمل بلا معاوضہ یا بلا نذرانہ ہی انجام دیتے تھے۔جس کے باعث مریضوں اور مریضوں کے اہل خانہ کا ان صوفیا پر یقین پختہ ہوتا تھا ۔جس کے باعث عقیدت کی بنیاد مستحکم ہوتی تھی۔لیکن معاصر دور کے نام نہاد خانقاہی صوفیا نے جھاڑ پھونک شروع کر دیی ہیں۔اسی کے باہم جھاڑ پھونک کی بڑی سے بڑی رقم وصولنے لگے ہیں۔نتیجہ کے طر پر ان کے جھاڑ پھونک میں اثر نہیں رہا۔انہوں نے اللہ کے کلام کو ذریعہء تجارت بنا کر رکھ دیا ہے۔ایسے سوداگروں کی زبان میں اثر کہاں سے آئےگا ۔یہی سبب ہے کہ آج ان لوگوں کی دعائوں میں اثر نہیں ہوتا ہے ۔وقت واقعی تغیر پسند ہے۔کبھی صوفیا کی زبان سے نکلے ہوئےالفاظ یا دعائیں فورآ اثر کرتے تھے ۔ان کی زبان خدا کی زبان تسلیم کی جاتی تھی ۔اس کی ایک مثال حضرت نظام الدین رحمتے آللہ علیہ کا ایک قول “ہنوز دلی دور است”ہے۔
تاریخ صوفیا شاہد ہے کہ حضرت نظام الدین علیہ رحمۃ کی بارگاہ میں حاضری کی کئی شاہان وقت نے درخواست کیں۔ لیکن بیشتر درخواستیں نامنظور ہوئیں۔ان شاہوں میں کتنوں نے جلال میں آکر آپ کو قتل کر دینے کی بھی منصوبہ بندی کی لیکن ہزار کوششوں کے باوجود اپنے مقصد میں ناکام رہے۔ایسا بس یوں ہی عمل پزیر نہیں ہوا بلکہ یہ تقرب الٰہی کا فیض تھا۔جو اصل صوفیا گزرے ان میں کئی صوفیا کرام کی ایسی ایسی مثالیں موجود ہیں۔ خود خواجہ اجمیری رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ کیا ہوا ۔شاہ وقت راجا داہر نے کیا کیا حکمت عملی انہیں اپنی سلطنت سے باہر کرنے کی اختیار کی حتیٰ کہ قتل کر دینے کا حکم اپنے فوجیوں کو دے دیا۔لیکن ہر طرح اسے ناکامی ہی ہاتھ ائی۔یہ تھی صوفیا کی کرامت اور صوفیت کا ماحصل ۔لیکن صد افسوس معاصر دور کی خانقاہوں کے صوفیا شاہ وقت یعنی وزیر اعلیٰ تو وزیر اعلیٰ ،ان کے ارڈرلی کی بھی جوتیاں چاٹنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔جن خاقانوں کے درن پر شاہان وقت کے سر جھکا کرتے تھے آج وہاں کے نام نہاد صوفیا ڈی ایم اور ایس پی کی جوتیاں چاٹتے نظر آتے ہیں۔جن خانقاہوں کے قدیم صوفیا پر ایک روپیہ گھروں میں رہ جانا گراں ہوتا تھا آج انہی خانقاہوں کے خود ساختہ صوفیا مال و زر کے پیچھے ایسے دیوانے ہیں کہ حرام و حلال کی بھی تمیز نہیں رہی۔ظرف اور ضمیر کی حفاظت تو در کنار یہ اپنے اسلاف و اجداد کے مراتب کی حفاظت کے بھی اہل نہیں رہے۔اگر موجودہ خود ساختہ صوفیا کا یہی عالم رہا تو اس دین اسلام کا اللہ ہی حافظ ہے۔کیونکہ آج بھی خانقاہوں کو اسلام کا قلعہ ہی تصور کیا جاتا ہے۔ان خود ساختہ صوفیا کی شبیہ کو ہی اسلام کی اصل شبیہ تصور کیا جاتا ہے۔لیکن اسے ان خود ساختہ صوفیا کی کم نصیبی ہی کہئے کہ انہیں اس امر کا احساس ہی نہیں ہے۔یہ تو صرف اور صرف اپنی جھولی و تجوری بھرنے میں ہمہ اوقات مصروف و مشغول ہیں۔اس عمل میں نہ یہ اخلاقیات کی پروا کرتے ہیں اور نہ ہی شریعت کی۔بس جس طرح بھی ہو اپنی تجوری بھرنی چاہئے۔
معاف کیجئے ناچیز نہ خانقاہ کا مخالف ہے اور نہ ہی صوفیا و صوفیت کا۔لیکن بطور اہل قلم حقائق کو منظر عام پر لانا اپنا فرض عین تصور کرتا ہے۔ناچیز اس امر کا بھی اظہار ناگزیر تصور کرتا ہے کہ اس مضمون میں جتنے بھی امور زیر تحریر آئے ہیں وہ سب کے سب ذاتی تجربات و مشاہدات پر مشتمل ہیں۔یا پھر تاریخی مطالعے پر۔جب خانقاہوں میں خود عنانیت کا منظر زیر نگاہ آتا ہے تو دل ہی نہیں بلکہ روح کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔اب تو حال یہ ہے کہ یہ خود ساختہ صوفیا ہر مسلم ادارے پر تسلط حاصل کرنے کے لئے اپنے وقار،اپنے اسلاف و اجداد کے نام و نمود و مقبولیت کو بھی ٹھوکروں میں اڑاتے ہوئے محض مالی مفاد کے پیچھے سرگرداں نظر آتے ہیں ۔جس کے باعث اسلامی مفاد کا زیاں عمل پزیر ہو رہا ہے۔ویسے ایسی بات نہیں ہے کہ اب حقیقی صوفیاء نہیں ہیں۔ایسے صوفیاء ابھی بھی روئے ارض پر موجود ہیں جن پر صوفیت اور اسلام کو ناز ہے۔
benamgilani@gmail.com