راہل گاندھی نہیں تو پھر کون ؟

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 21st Sept

کانگریس صدر کے عہدے کے لئے اگلے ماہ انتخاب ہونا ہے۔ انتخاب کا نوٹیفکیشن آج جاری ہوجائے گا۔اس انتخاب کے لئےپچھلے دو برسوں سے ماحول بنایا جا رہا تھا۔ نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد کاغذات نامزدگی جمع کرنے کا عمل شروع ہو جائےگا۔راہل گاندھی کانگریس کے صدر کی ذمہ داری لینے کے لئے ابھی تک تیار نظر نہیں آ رہے ہیں۔چنانچہ چرچہ ہے کہ وہ اس دوڑ میں شامل نہیں ہو نگے۔اگر ایسا ہوتا ہے تو برسوں بعد گاندھی خاندان سے باہر کوئی شخص صدر کے عہدے پر فائز ہوسکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کانگریس لیڈروں کا ایک پورا طبقہ راہل کی حمایت میں کھڑا ہے۔ گاندھی خاندان کا وفادار گروپ چاہتا ہے کہ راہل گاندھی ہی پارٹی کی باگ ڈور سنبھالیں۔ فی الحال کانگریس کے دو تجربہ کار لیڈروں نے صدر کا عہدہ سنبھالنے کا اپنا ارادہ واضح کر دیا ہے۔ ان میں سب سے پہلا نام سابق مرکزی ششی تھرور کا ہے۔ دوسرے راجستھان کے وزیر اعلی اشوک گہلوت ہیں۔ان کے علاوہ مزید نام بھی سامنے آ سکتے ہیں۔
سابق مرکزی وزیر ششی تھرور پہلے دعویدار ہیں، جنہوں نے صدر کے عہدے کے لئے انتخاب لڑنےکا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ انھوںنے گزشتہ سوموار کو پارٹی صدر سونیا گاندھی سے ملاقات کر کےانھیں صدر کے عہدے کے لیے انتخاب لڑنے کی اپنی خواہش سے آگاہ کیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ سونیا گاندھی نے ان سے کہا ہے کہ پارٹی کے لیے بہتر ہے کہ اس الیکشن میں ایک سے زیادہ امیدوار کھڑے ہوں۔ اس میں ان کا کردار غیر جانبدار رہے گا۔ اس ملاقات کے دوران سونیا گاندھی نے ان قیاس آرائیوں کو بھی مسترد کر دیا کہ اس الیکشن میں پارٹی کی طرف سے کوئی آفیشل امیدوار ہو گا۔سونیا گاندھی سے ملاقات کے بعد ہی انہوں نے واضح کیا ہے کہ وہ 17 اکتوبر کو صدر کے انتخاب میں حصہ لیں گے۔ششی تھرور ان 23 رہنماؤں میں شامل ہیں، جنہوں نے 2020 میں سونیا گاندھی کو خط لکھ کر تنظیم میں بنیادی تبدیلی کی اپیل کی تھی۔ ان رہنماؤں نے پارٹی کی حالت زار کا ذمہ دار مرکزی قیادت کو ٹھہرایا تھا۔
ادھر ششی تھرور کے اعلان کےچند گھنٹوں کے بعد ہی راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت کا بھی دعویٰ سامنے آگیا۔ انہوں نے بھی یہ واضح کر دیا کہ وہ کانگریس کے اعلیٰ عہدے کے لیے ہونے والے انتخابات میں حصہ لیں گے۔ اشوک گہلوت کے میدان میں اترنے کے اعلان سے ایسا لگ رہا ہے کہ کانگریس صدر کا انتخاب اس بار بہت ہی دلچسپ ہو نے والا ہے۔واضح ہو کہ اشوک گہلوت گاندھی خاندان کے پرانے وفادار ہیں۔ وہ اب تک راہل گاندھی پر پارٹی سربراہ بننے کے لیے دباؤ ڈالتے رہے ہیں۔ گہلوت کو ایسے لیڈروں کی حمایت بھی مل سکتی ہے جو پارٹی کو موجودہ پوزیشن میں یا راہل کو اعلیٰ عہدے پر دیکھنا چاہتے ہیں۔قابل ذکر ہے کہ راہل گاندھی نے 2019 کے عام انتخابات میں زبردست شکست کے بعد کانگریس صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس کے بعد سونیا گاندھی نے پارٹی کی عبوری صدر کی ذمہ داری سنبھالی تھی۔
ان دنوں راہل گاندھی کانگریس کی’’ بھارت جوڑو یاترا‘‘ پر نکلے ہوئے ہیں۔بہت پہلے سے یہ اصرار کرتے رہے ہیں کہ وہ صدر نہیں بننا چاہتے۔ وہیں کانگریس لیڈروں کا ایک طبقہ انھیں اس کے لئے تیار کرنے میں لگا ہواہے۔گزشتہ سوموار کو بھی پارٹی کی آٹھ مقامی اکائیوں بشمول سات ریاستی کانگریس کمیٹیوں نے راہل گاندھی کی حمایت میں قراردادیں منظور کیں۔ راجستھان، گجرات اور چھتیس گڑھ کے بعد تمل ناڈو، مہاراشٹر، جموں و کشمیر اور بہار اور ممبئی میں کانگریس کی اکائیوں نےمنگل کے روز قراردادیں پاس کیں، جن میں کہا گیا ہے کہ راہل گاندھی کو ایک بار پھر پارٹی کی باگ ڈور سنبھالنی چاہیے۔ راہل گاندھی سے یہ اپیل ایسے وقت میں کی جا رہی ہے جب آج پارٹی صدر کے انتخاب کا نوٹیفکیشن جاری ہونے والا ہے۔امکان ہے کہ جیسے جیسے انتخاب کے دن قریب ہوتے جائیں گے راہل گاندھی پر صدر کا عہدہ قبول کرنے کا دباؤ بڑھتا ہی جائے گا۔حالانکہ 9 ستمبر کو کنیا کماری میں راہل گاندھی نے اشارہ دیا تھا کہ وہ پارٹی کے صدر نہیں بننے کے اپنے پرانے فیصلے پر قائم ہیں۔ایسے میں پتہ نہیں کب تک یہ سوال اپنی جگہ بر قرار رہے گا کہ کانگریس کے صدر کے عہدے پر راہل گاندھی نہیں تو پھر کون فائز ہوگا ؟