عبد،معبود اور عبدیت

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 30th Sept

ریاض فردوسی
اور ہر ایک کوشش کرنے والا اپنے ہی بھلے کی کوشش کرتا ہے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمام جہان والوں سے یقیناََ بے نیاز ہے(سورہ العنکبوت۔آیت۔6)
اس آیت مبارکہ میں دین کے راستے میں کی ہوئی ہر محنت داخل ہے، چاہے وہ نفس اور شیطان کا مقابلہ کرنے کی محنت ہو یا تبلیغ ودعوت کی محنت، یا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے کی محنت۔مجاہدہ کے معنی کسی مخالف طاقت کے مقابلہ میں کش مکش اور جدوجہد کرنے کے ہیں، اور جب کسی خاص مخالف طاقت کی نشان دہی نہ کی جائے ،بلکہ مطلقاََ مجاہدہ کا لفظ استعمال کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ ایک ہمہ گیر اور ہر جہتی کش مکش ہے، مومن کو اس دنیا میں جو کش مکش کرنی ہے اس کی نوعیت یہی کچھ ہے۔ اسے شیطان سے بھی لڑنا ہے جو اس کو ہر آن نیکی کے نقصانات سے ڈراتا اور بدی کے فائدوں اور لذتوں کا لالچ دلاتا رہتا ہے، اپنے نفس سے بھی لڑنا ہے جو اسے ہر وقت اپنی خواہشات کا غلام بنانے کے لیے زور لگاتا رہتا ہے۔ اپنے گھر سے لے کر آفاق تک کے ان تمام انسانوں سے بھی لڑنا ہے جن کے نظریات، رجحانات، اصول اخلاق، رسم و رواج، طرز تمدن اور قوانین معیشت و معاشرت دین حق سے متصادم ہوں۔ اور اس ریاست سے بھی لڑنا ہے جو خدا کی فرماں برداری سے آزاد رہ کر اپنا فرمان چلائے اور نیکی کے بجائے بدی کو فروغ دینے میں اپنی قوتیں صرف کرے۔امام راغب اصفہانی جہاد کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ترجمہ: دشمن کے مقابلہ و مدافعت میں فوراً اپنی پوری قوت و طاقت صرف کرنا جہاد کہلاتا ہے(راغب الصفہانی، المفردات: 101)
خلیفہ سلیمان بن عبدالملک بن مروان بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا۔ اس کی نظر ایک نوجوان پر پڑی- جس کا چہرہ بہت پُر وقار تھا- مگر وہ لباس سے مسکین لگ رہا تھا۔سلیمان بن عبدالملک نے پوچھا، یہ نوجوان کون ہے۔ تو اسے بتایا گیا کہ اس نوجوان کا نام سالم ہے اور یہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیٹا اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا پوتا ہے۔
سلیمان نے اِس نوجوان کو بلا بھیجا۔سلیمان بن عبدالملک نے پوچھا کہ بیٹا میں تمہارے دادا سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا بڑا مداح ہوں۔ مجھے تمہاری یہ حالت دیکھ کر بڑا دکھ ہوا ہے۔ مجھے خوشی ہو گی اگر میںآپ کے کچھ کام آ سکوں۔ تم اپنی ضرورت بیان کرو۔ جو مانگو گے تمہیں دیا جائے گا۔
نوجوان نے جواب دیا! میں اس وقت اللہ کے گھر بیت اللہ میں ہوں اور مجھے شرم آتی ہے کہ اللہ کے گھر میں بیٹھ کر کسی اور سے کچھ مانگوں۔ سلیمان بن عبدالملک نے اس کے پُرمتانت چہرے پر نظر دوڑائی اور خاموش ہو گیا۔سلیمان نے اپنے غلام سے کہا کہ یہ نوجوان جیسے ہی عبادت سے فارغ ہو کر بیت اللہ سے باہر آئے، اسے میرے پاس لے کر آنا۔سیدناسالم بن عبداللہؓ بن عمرؓ جیسے ہی فارغ ہو کر حرمِ کعبہ سے باہر نکلے تو غلام نے اُن سے کہا کہ خلیفہ نے آپ کویادکیاہے۔سیدناسالم بن عبد اللہ ؓ سے خلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے کہا۔نوجوان! اب تو تم بیت اللہ میں نہیں ہو، اب اپنی حاجت بیان کرو۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں تمہاری کچھ مدد کروں۔سید ناسالم بن عبداللہؓ نے ارشادفرمایا! آپ میری کونسی ضرورت پوری کر سکتے ہیں، دنیاکی یا آخرت کی؟سلیمان نے جواب دیا، کہ میری دسترس میں تو دنیاوی مال و متاع ہی ہیں۔ سیدناسالم بن عبداللہؓ نے جواب دیا! دنیا تو میں نے کبھی اللہ وحدہ لاشریک سے بھی طلب نہیں کی۔ جو اس دنیا کا مالک ومختار ہے۔ آپ سے کیا مانگوں گا۔ میری ضرورت اور پریشانی تو صرف آخرت کے حوالے سے ہے۔ اگر اس سلسلے میں آپ میری کچھ مدد کر سکتے ہیں تو میں بیان کرتا ہوں۔خلیفہ حیران و ششدر ہو کر رہ گیااور کہنے لگا کہ نوجوان یہ تو نہیں تیرا خون بول رہا ہے۔خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کو حیران اور ششدر چھوڑ کر سیدناسالم بن عبداللہؓ وہاں سے نکلے اور حرم سے ملحقہ گلی میں داخل ہوئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے۔
مومن کی فراست ہوتو کافی ہے اشارہ!
ہر ذی شعور انسان کو اپنے آپ سے تین سوال کرنا چاہیے اور ان کا تسلی بخش جواب تلاش کرنا چاہیے۔اسے کس نے پیدا کیا ہے؟اس کا ٹھکانہ کہاں اورکیاہے؟کس مقصد کے لیے وہ اس دارفانی میں آیا ہے؟
جن لوگوں کی فطرت صحیح وسالم ہے وہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انسان ہی نہیں بلکہ اس پوری کائنات کا ایک ہی خالق ہے، وہی اس کا مالک ومدبر ہے،اسی کے قبضۂ قدرت میں سب کچھ ہے۔
مومن جب خوشحال ہوتا ہے،زندگی کے آلام ومصائب سے دوچار نہیںہوتاہے، تو اس کی طبیعت میں غفلت پیدا ہوجاتی ہے، وہ اپنی کامیابی کو اپنی قابلیت پر محمول کرتا ہے،اور اپنے خالق ومالک سے دور ہوجاتا ہے، لیکن مومن کی فطرت اس وقت نکھر کر سامنے آتی ہے جب وہ پریشانیوں اور مصائب وآلام میں گھرا ہوا ہو۔ان کی یلغار کے سامنے بے بس ہو، اس وقت وہ مضطرب ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو اپنے مالک وخالق کے حوالے کردیتاہے،جوہربے سہاروں کاسہارا ہے۔
سیدناامام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے اللہ کے بارے میں پوچھا گیا توانہوں نے سائل سے پوچھا کہ تم نے سمندری سفر کیا ہے۔سائل نے کہا:جی۔ پھر آپؓ نے پوچھا: کبھی تمہاری کشتی طوفان میں پھنسی ہو،اور تمام امیدیں ختم ہوگئی ہوں تو تمہارے دل میں کسی کا خیال آتا ہے کہ وہ چاہے تو بچالے گا۔ سائل نے کہا:جی۔ تو آپ نے کہا:وہی اللہ ہے۔
عقل انسانی بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ بغیر صانع کے کسی صنعت کا وجود ممکن نہیں ہے، بغیر خالق کے کوئی مخلوق وجود میں نہیں آسکتی، یہ ستاروں بھرا آسمان، سبزہ زار زمین، شمس وقمر، درخت وسمندر، پہاڑ،کائنات کی ہرچیز پکار کر انسان کو ایک خالق کی طرف متوجہ کرتی ہے۔
ہم عنقریب ان کو اپنی قدرت کی نشانیاں ان کے گرد ونواح میں بھی دکھا دیںگے اور خود ان کی ذات میں بھی، یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ وہ حق ہے(حم سجدہ۔53)
خود انسان کی ذات مشت خاک سے انسان کی پیدائش کا آغاز،پھر ایک حقیر اور بے جان قطرہ آب کے ذریعے توالد وتناسل اس میںشعور وآگہی کی حیرت انگیز صلاحیتیں پیدا ہونا یہ سب خالق کے وجود کی شہادت دیتی ہے۔تبارک اللہ احسن الخالقین۔
صانع حقیقی کی ہر شئے اپنے حسن تخلیق اور حسن ترکیب سے خالق کے وجود کی شہادت دیتی ہے، اس کی صنعت گری کے معمولی سے معمولی نمونہ اور اس کی تخلیق کے بڑے سے بڑے شاہکار سب درس معرفت دیتے ہیںکہ کائنات کا یہ حیرت انگیز کارخانہ ترتیب سے چل رہا ہے،کیا مجال کہ اس کی کوئی چیز حد سے تجاوز کرے۔
ہمیں رحمان کی اس صنعت میں کوئی خلل نہیں دیکھائی دے گا۔ تیزنگاہوںسے دیکھ کر کہیں کوئی خلل نظر نہیں آئے گا ۔ صدیوں سے غور فکر کے دفاتر کھلے ہیں،رحمان کی تخلیق پر مصنفین زورِ قلم آزما رہے ہیں ،لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کی بے مثال خلقت میں ذرا سا نقص بھی نہ نکال سکے۔جو لوگ اللہ تعالیٰ کی بادشاہت تسلیم کرتے ہیں،اس کا اعتراف ہے کہ انسان کی تخلیق قدرت کا عجیب وغریب کرشمہ تھاجس نے ملک اور جنات،اور تمام مخلوق جو اس وقت موجود تھی چونکا دیا تھا۔لیکن انسان اس دنیائے فانی کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ دنیا اس کے لیے پیدا کی گئی ہے۔انسان کی تخلیق تو آخرت کے لیے ہوئی ہے۔ یہ دنیا ایک سرائے ہے، دارالعمل ہے، اور آخرت دارالجزا ہے، یہ اس کے سفر کی ایک منزل ہے، آخری منزل تو آخرت ہے، وہی اس کا آخری ٹھکانہ ہے، جہاں جنت کے فرشتے متقین کا استقبال کرتے ہوئے کہیں گے۔ تم پر سلامتی ہو،شاد رہو اور اس میں ہمیشہ کے لیے داخل ہوجاؤ(الزمر۔73 آیت کا آخری حصہ ہے)
یہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ جو علیم وحکیم ہے، انسان کو بے کار پیدا کردیا ہو،بلکہ انسان کو اللہ کے یہاں لوٹ کر جانا ہے۔ انسان اس دنیائے فانی سے جانے کے لیے ہی آیا ہے۔ ہر صانع اپنی صنعت کے بارے میں اچھی طرح جانتا ہے کہ اس کو کس مقصد کے لیے بنایا ہے، انسان کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔عبادت ہی وہ عہد قدیم ہے جو اللہ نے اولاد آدم سے لیا ہے۔
اے اولادِ آدم! کیا میںنے تم کو تاکید نہ کردی تھی کہ تم شیطا ن کی عبادت نہ کرنا وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے، اور یہ کہ میری ہی عبادت کرنا،یہی سیدھا راستہ ہے(یٰس۔60.61)
جو انسان اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کرتا ہے، اس کی ہدایات کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے، وہ کامیاب انسان ہے، اور جو اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پرواہ نہیں کرتا، اس کی مرضیات کے مطابق زندگی نہیں گزارتا وہ ناکام انسان ہے، کیونکہ جو چیز اپنے مقصد وجود کو پورا نہیں کرتی وہ ناکام ہوتی ہے۔ عبادت کا دائرہ صرف نماز، روزہ، زکوۃ، حج تک ہی محدود نہیں بلکہ انتہائی عاجزی وانکساری کے ساتھ جو کام بھی اللہ کی خوشنودی کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر کیا جائے وہ عبادت میں داخل ہے۔ لہذا ہمارا چلنا پھرنا، سونا جاگنا، کھانا پینا، لین دین، خریدوفروخت، تجارت وصنعت، شادی بیاہ، خوشی وغمی، سب کچھ اللہ کے قانون کے مطابق ہو۔پوری زندگی زندگی بخشنے والے کو راضی کرنے کی کوشش میں بسر ہو، اس کی عبادت کی جائے جس نے سب کچھ عطا کیا ہے، اس کی بندگی کی جائے جو ہر لمحہ پرورش کرتا ہے، اس کی اطاعت کی جائے جو مالک ہے، اس سے محبت کی جائے جس کی رحمتوں کی کوئی حد نہیں ہے، اس کے غصّے سے بچا جائے جس کی ناراضگی سے کوئی پناہ کہیں نصیب نہیں، اس کے سامنے ہاتھ پھیلایا جائے جو دے کر خوش ہوتا ہے،اورنامانگنے پرناراض ہوتا ہے، عطاکرنے سے ،باٹنے سے ،جس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہوتی، اسی سے اپنی خطاؤں کی معافی، توبہ واستغفار کیا جائے، جو غفور ورحیم ہے۔
ایک شخص کی طبیعت ناساز ہوئی تو طبیب کے پاس گیااور کہا کہ مجھے دوائی دے دیں! طبیب نے کہا کہ دوائی کے لیے جو چیزیں درکار ہیں سب میسرہیں، سوا ئے شہد کے۔ اگر شہد کہیں سے لا دو تودوائی تیار کردوںگا۔اس مریض نے ہر آدمی سے شہد مانگا، لیکن اسے ہر جگہ مایوسی ملی۔اس لئے کہ موسم شہد کا نہیں تھا۔جب مسئلہ حل نہ ہوا تو وہ سلطان محمود غزنوی کے در پرگیا ۔سلطان محمودغزنوی کے غلام ایاز نے دروازہ کھولا اور دستک دینے والے کے سوال کوسنا۔ مریض نے ایاز سے کہا کہ مجھے شہد اس برتن میں چاہئے،اور چھوٹاسا ڈبہ ایاز کے سامنے پیش کردیا۔ایاز نے کہا آپ تشریف رکھیں۔میں سلطان محمودغزنوی سے اجازت لے کر آپ کی امید پوری کرتا ہوں۔ایاز وہ چھوٹاساڈبہ لے کر سلطان کے سامنے حاضر ہوا اور کہا ! ایک سائل کو شہد کی ضرورت ہے ۔بادشاہ نے وہ ڈبہ لیا اور ایک طرف رکھ دیااور کہا! ایاز اس مریض کو تین بڑے ڈبے شہد کے دے دو۔ایاز نے کہا گستاخی معاف کریں، اس کو تو تھوڑی سی شہدہی چاہئے ،آپ اتنازیادہ کیوں دے رہے ہیں ؟محمود غزنوی نے کہا: ایاز وہ مزدور آدمی ہے اس نے اپنی حیثیت کے مطابق طلب کیا ہے۔ہم سلطان ہیں، ہم اپنی حیثیت کے مطابق دیں گے۔
مولانا جلال الدین رومی فرماتے ہیں !اللہ تعالیٰ سے اپنی حیثیت کے مطابق مانگو، وہ اپنی بے انتہاشان ِلطف وکرم کے مطابق عطا فرمائے گا،اپنے رحم وکرم کے صدقے اور طفیل میں عنایت کرے گا۔ شرط یہ ہے کہ مانگو تو سہی ،دست ودراز تو بنو،اس کے سامنے پیشانی خم توکرو(حوالہ۔کاملین،بیضاوی،تفسیر کبیر،تفسیر زاہدی،فیوض الرحمان،تفسیر ابن کثیر ،تفہیم القرآن)
موبائل:9968012976