ملی رہنماؤں سے ایک سوال

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 20th Sept

کیا یہ انتہائی افسوس ناک اور باعث شرم بات نہیںہے کہ جس دین نے بھیک مانگنے سے،سب سے زیادہ منع کیا ہو، محنت سے کمانے کھانے اور کوشش و جدوجہد سے روزی حاصل کرنے پر سب سے زیادہ زور دیا ہو، اسی دین کے نام لیواؤں میں بھکاریوں کا تناسب اتنازیادہ ہو جائے کہ ہر چوراہے، گلی کوچے، مسجد کے سامنے بھیک مانگنے والوں کی بھیڑ دکھائی دینے لگے ؟ حالانکہ یہ سب کو معلوم ہے کہ رب سے مانگنے والے کبھی مایوس نہیں ہوتے اور جو لوگ ہر ایک سے ہر وقت ہر چیز مانگتے پھرتے ہیں، انہیں مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملتا، لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے کو ہی بھیک کہا جاتا ہے اور یہ انسان کی غیرت و حمیت کے خلاف ہے۔ اس سے خودداری ختم اور شرم و حیا جاتی رہتی ہے۔بھیک مانگنے کی عادت کی وجہ سے انسان کاہل و کام چور اور لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل و خوار ہوجاتا ہے۔ وہ جب بھی مانگتا ہے خوشامد کرتے ہوئے مانگتا ہے۔ بھکاری کو سب کچھ سہنا پڑتا ہے کیوں کہ اس کا ہاتھ نیچے ہوتا ہے تو نیچا بن کر رہنا بھی پڑتا ہے، دینے والے کا ہاتھ اوپر ہوتا ہے اور اسے معاشرے میں اونچا مانا جاتا ہے۔اسلامی تعلیمات میں مختلف مقامات پر بھیک مانگنے سے سخت منع کیا گیا ہے۔نبی کریمؐ کا ایک مشہور فرمان ہے: ’’ اوپر والے کا ہاتھ نچلے ہاتھ والے سے بہتر ہے، اوپر کا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نچلا ہاتھ مانگنے والا ہے۔‘‘
انسان کی غیرت و حمیت پر کاری ضرب کاری کرنے والی اس عادت کے نقصانات کیا کیا ہیں اور اس کے اثرات کن کن زاویوں سے ہمارے معاشرے کو بیمار کرتے ہیں، یہ بات بیشتر باشعور لوگوں کو معلوم ہے۔چنانچہ اس پر روشنی ڈالنا آج کے اداریہ کا قطعی مقصد نہیں ہے۔آج کے اداریہ کا مقصد صرف اور صرف یہ سوال کرنا ہے کہ گداگری کے سدباب کے لئے منصوبہ بندی کے ساتھ کام کیوں نہیں ہوتا ہے۔یہ سوال ان تمام ملی اداروں کے سربراہوں اور ملی رہنماؤں سے ہے، جو اصلاح معاشرہ کے میدان میں کام کرتے ہیں یا کام کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ایسے حضرات سے یہ بھی پوچھنا ہے کہ جس دین نے اپنے پیروکاروں کو منظم اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند جینے اور زندگی گزارنے کی تاکید کی تھی ، وہ اتنی منتشر اور حواس باختہ کیسے ہو گئی ہے ؟ کیسے یہ کارواں احساس زیاں سے بھی محروم ہو گیا ؟ کیسے یہ معاشرہ اتنا بیمار ہو گیا کہ اسے اپنی بنیادی ذمہ داریاں بھی یاد نہیں رہیں ؟ کیسے اس سماج کا دانشور طبقہ فلک شگاف تقریروں اور فصیح و بلیغ تحریروں میں گم ہوگیا ؟ یہ قوم عملی میدان میںدور دور تک کیوں نہیں نظر آ رہی ہے ؟ اس طرح کے بے شمار سوالات ہیں ، جن کے معقول جواب شاید کسی کے پاس نہیں ہیں۔ لیکن گداگری کے سد باب کے لئے اگر کہیں اور کوئی منصوبہ بند کوشش نظر آئے تو اسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔
واقعہ ہے کہ 44 سالہ مایا لکھنؤ کے چارباغ ریلوے اسٹیشن پر کھمبا پیر بابا کے مزار کے باہر بھیک مانگتی تھی۔ وہ 8 ماہ کی حاملہ تھی جب ایک رات فٹ پاتھ پر سو رہی تھی تو ایک کار اس پر چڑھ گئی۔ تب سے اس کی کمر کا نچلا حصہ مفلوج ہو گیا تھا۔ لیکن زندگی میں ایک تبدیلی نے اس کی پوری دنیا کو بدل دیا۔ مایا اور 430 سے زیادہ ایسے بھکاری ہیں جو آج 33 سالہ شرد پٹیل نام کے ایک نوجوان کے شکر گزار ہیں۔ شرد ایک ریسرچ اسکالر ہیں ۔ وہ لوگوں کو عزت کے ساتھ اپنے پیروں پر کھڑا ہو کر زندگی جینے کا ہنرسکھاتے ہیں ۔شرد کی وجہ سے ہی مایا آج موبائل کی دکان چلاتی ہے۔ وہاں مایا ماسک اور پانی کی بوتلیں بھی بیچتی ہے۔ اس کی روزانہ کی کمائی 500 روپے ہے۔ اس نے ایک کمرہ کرائے پر لیا ہے۔ ان کی بیٹی اسکول جاتی ہے اور بیٹا گودام میں کام کرتا ہے۔ اس کے جیسے اور بھی ہیں، جن میں رکشہ چلانے والے، سبزی بیچنے والے،فٹ پاتھ پرسامان بیچنے والے، جن کی زندگیاں شرد نے بدل دی ہیں۔ شرد نے سوچ سے بالاتر ہو کر ایک شاندار کام کیا ہے۔ وہ لکھنؤ میں اب تک 430 سے زیادہ بھکاریوں کو نئی زندگی دے چکے ہیں، جن میں سے 335 باوقار زندگی گزار رہے ہیں، جن کے پاس آمدنی کا کوئی مستقل ذریعہ نہیں ہے۔ اس کے بعد شرد سڑکوں پر بھیک مانگنے والے بچوں کے لیے اسی طرح کی اسکیم پر کام کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
شرد نے اپنے دوستوں جگدیپ راوت اور مہندر پرتاپ کے ساتھ اکتوبر 2014 میں بھکاری کی آزادی کی مہم شروع کی تھی، جسے ستمبر 2015 میں سماجی تبدیلی کی کوشش کے لئے انھیں وسیع پیمانے پر پہچان ملی۔ شرد بتاتے ہیں کہ ان کا خاندان بلڈ کینسر سے لڑنے والی اپنی ماں کے علاج کے لیے سال 2003 میں ہردوئی سے لکھنؤ منتقل ہوا تھا۔ اس وقت وہ گیارہویں جماعت میں پڑھتے تھے۔اس وقت شرد جب بھی مندروں اورمزاروں کی طرف جاتے تو انھیں باہر بھکاریوں کی قطار نظر آتی۔ لیکن جب بھی وہ گرودوارہ جاتا تو منظر بدل جاتا۔ وہاں لنگر کا کھانا سب کو کھلایا جاتا تھا اور باہر کوئی بھکاری نہیں رہتا تھا۔ یہیں سے اسے کمیونٹی کچن کا آئیڈیا پسند آیا۔ شرد بتاتے ہیں کہ لکھنؤ میں پوسٹ گریجویشن کے دوران ایک نوجوان لڑکے نے ان سے کھانے کے لیے 10 روپے مانگے تھے۔ لیکن شرد اسے پیسے دینے کے بجائے قریب ہی موجود کھانےکے ایک چھوٹے سے ٹھیلے کےپاس لے گئے، تاکہ وہ کافی کھانا کھا سکے۔ لیکن یہ بات ان کے دماغ پر چھائی اور ریسرچ اسکالر شرد نے سوچنا شروع کر دیا کہ وہ کس طرح بھکاریوں کی زندگی میں تبدیلی لا سکتے ہیں، تاکہ وہ بھی مین اسٹریم کا حصہ بن جائیں۔ کیا ملی اداروں کے سر براہ اور اصلاح معاشرہ کے نام پر جلسے جلوس منعقد کرنے والےملی رہنما اپنی نگرانی میں کوئی ایسی ٹیم کھڑا کر سکتے ہیں ، جو شرد پٹیل کی ٹیم جیسا کام کر سکے ؟
****************