نفرت انگیزی کا سلسلہ ضرور بند ہوگا

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 23rd Sept

اپنی پسند کی سیاسی جماعتوں کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے ملک کی مختلف ٹی وی چینلوں کے ذریعہ برتی جا رہی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں کو سپریم کورٹ نے سنجیدگی سے لیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ٹی وی چینلوں پرہونے والی بحث کوبے لگام بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اسے روکنے کی ذمہ داری اینکروں کی ہے ، لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ کورٹ نے سوال کیا ہے کہ مرکزی حکومت ٹی وی کے ذریعہ پھیلائی جا رہی نفرت انگیز تقاریر پر نظر کیوں نہیں رکھتی ہے۔ وہ تماشائی کیوں بنی ہوئی ہے ؟
ایڈوکیٹ اشونی کمار اپادھیائے کی طرف سے دائر مفاد عامہ کی عرضیوں کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس کے ایم جوزف اور رشیکیش رائے کی بنچ نے گزشتہ بدھ کو میڈیا بشمول ٹی وی چینلز کے کردار پر غور تے ہوئے جو کچھ بھی کہا اس سے باخبر رہنا ملک کے باشعور شہریوں کے لئے ضروری ہے۔ ہندو مسلم، مندر مسجد اور اس طرح کے مذہبی تنازعات پر مبنی، ٹی وی چینلوں پرشب و روز چلنے والے نفرت انگیزڈیبیٹس کے حوالے سے سپریم کورٹ نے کہا کہ آج کل اینکر اپنے مہمانوں کو بولنے کی اجازت نہیں دیتے۔ انہیں میوٹ بھی کر دیتے ہیں اور بے شرم بھی ہو جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ آزادی اظہار کے نام پر ہو رہا ہے۔اور افسوس کی بات ہے کہ کوئی ان کا احتساب نہیں کر رہا۔ آخر یہ ملک کہاں جا رہا ہے؟
کورٹ نے حکومت کے رویہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آپ اسے ایک عام مسئلہ کے طور پر کیوں لے رہے ہیں۔ شرانگیز تقاریر ملک کے تانے بانے میں زہر گھول رہی ہیں۔ اس طرح کی غیر ذمہ دار انہ حرکتوںکی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ سیاسی جماعتیں آئیں گی اور جائیں گی، لیکن ملک اور آزاد صحافت کا ادارہ زندہ رہے گا۔ ہمیں حقیقی آزادی ہونی چاہیے اور حکومت کو اس سلسلے میں اپنا موقف واضح کرنے کے لئے آگے آنا چاہیے۔ نیوز چینلوںکے لیے رہنما خطوط ہونے چاہئے۔ سپریم کورٹ نے نفرت انگیز تقاریر کے معاملے پر وشاکھا اور تحسین پونا والا کے مقدمات میں سابقہ فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مرکز کے جواب پر غور کرنے کے بعد ہی ٹی وی چینلز کے لیے کچھ رہنما اصول وضع کیے جا سکتے ہیں۔ مرکزی حکومت کو اس معاملے کو قانون سازی کے ایک موقع کے طور پر لینا چاہئے۔
بنچ نےیہ بھی تبصرہ کیا کہ مین،ا سٹریم میڈیا میں کم از کم اینکر کا کردار بہت اہم ہے۔ جیسے ہی کوئی نفرت انگیز تبصرہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، اینکر کا فرض ہے کہ وہ اسے فوراً روکے۔ بنچ نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی میں سامعین کا حق بھی شامل ہے۔ جب تک ادارہ جاتی انتظامات نہیں ہوں گے، لوگ ایسے ہی چلتے رہیں گے۔ ہمارے پاس ایک مناسب قانونی فریم ورک ہونا چاہیے۔منصفانہ اور حقائق پر مبنی رپورٹنگ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب نشریاتی پروگرام دوسروں کو اکسانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ نفرت انگیز تقریریں یا تو ٹی وی نیوز چینلز یا سوشل میڈیا کے ذریعے آرہی ہیں۔
میڈیا کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے بنچ نے کہا کہ اگر یہ آزاد ہے تو اپنی بات کہنے کے لئے کسی سے حکم لینے کی ضرورت نہیں ہے۔آپ (میڈیا) آئینی اقدار کو فروغ دیں، ہر کوئی اس جمہوریہ کا حصہ ہے۔ سب اس ایک قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔نفرت انگیز تقریر مختلف شکلوں میں ہو سکتی ہے۔ اس میں کسی کمیونٹی کے خلاف سست رفتار مہم چلانا بھی شامل ہو سکتا ہے۔ لوگوں پر ویزول میڈیا کے بہت ہی برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔اس میں نفرت انگیز باتیں زیادہ رہتی ہیں۔اخبارات میں کیا لکھا ہوا ہے، اس سے لوگوں کو کچھ زیادہ مطلب نہیں رہ گیا ہے۔کیوں کہ لوگوں کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہے کہ اس کو پڑھیں۔
ایڈوکیٹ اشونی کمار اپادھیائے نے اپنی عرضی میں حالانکہ پریس کونسل آف انڈیا اور نیشنل ایسوسی ایشن آف براڈکاسٹرس کو بھی نفرت انگیز تقریر اور افواہ پھیلانے کے معاملے،فریق بنانے کی درخواست کی تھی ، لیکن سپریم کورٹ نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ اس معاملے میں جواب دینے کے لئے مرکز سے دو ہفتے کاوقت دیا ہے ۔اس ایشو پر مرکز ی حکومت کے وکیل کا کہنا تھا کہ ابھی صرف 14 ریاستوں سے جواب ملا ہے۔سپریم کورٹ کے مطابق اس معاملے کی اگلی سماعت 23 نومبر کو ہو نے والی ہے ۔اب دیکھنا یہی ہے کہ حکومت حتمی طور پر کورٹ کے سامنے اپنے موقف کا اظہار کس طرح سے کرتی ہے اور کورٹ کا اس پر کیسا فیصلہ آتا ہے۔ ویسے ایک جمہوری ملک کے شہری اور مہذب معاشرے کا فرد ہونے کی حیثیت سے بھارت کے ایک ایک آدمی کو یہ یقین رکھنا چاہئے کہ ٹی وی چینلوں کے توسط سے نفرت انگیزی کا ضرور سلسلہ بند ہوگا۔
***********************