کیا تائیوان کا حشر بھی یوکرین جیسا ہی ہونا ہے

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 23rd Sept

بےنام گیلانی

ایسا مشاہدے میں آتا ہے کہ انسان دوسروں کی تباہی و بربادی سے عبرت حاصل کرتا ہے۔لیکن عقل کے اندھوں کا کوئی علاج نہیں ہے۔یوکرین کی امریکی غلامی اور جنگی جنون کا انجام دیکھنے کے باوجود تائیوان عین یوکرین کی مانند جنگ کی آگ میں چھلانگ لگانے پر مصر ہے۔وہ بھی اس لئے کہ اسے امریکہ کی جانب سے بارہا یہ یقین دہانی کرائی جا رہی ہے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔اگر تم پر کوئی حملہ آور ہوتا ہے تو اسے اسی کی زبان میں جواب دیا جائےگا۔تائوان کی وزیر اعظم اسی زبانی یقین دہانی کے بل پر چین جیسی زبردست طاقت سے محاذ آرائی کو آمادہ ہیں۔وہ شاید اس امر کو فراموش کر چکی ہیں کہ امریکہ کے بل پر جس ملک نے بھی آتش جنگ میں چھلانگ لگائی اس کے قدم محض اکھڑے ہی نہیں بلکہ جل کے خاستر میں تبدیل ہو گئے۔جنگ کے بعد وہ کسی بھی قسم کی پیش قدمی کے قابل نہیں رہا۔اس کا حال کیا مستقبل بھی تباہ و برباد ہو کر رہ گیا۔امریکہ کی حقیقت بس اتنی ہے کہ وہ ایک ماہر و شاطر سامان حرب کا تاجر ہے۔اس کا ہر قدم ،ہر عمل تاجرانہ ہوتا ہے ۔وہ اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے ہمہ اوقات تیار رہتا ہے۔خواہ اس میں انسانوں کی لاشیں بچھیں یا انسانیت کی۔ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔اس کی زبان کو خون کی لذت مل چکی ہے اور اب وہ خون انسانی کا عادی ہو چکا ہے۔امریکہ آج خون کا عادی نہیں ہے۔اس کی خونی تاریخ بہت قدیم ہے۔اس میں ویتنام کی تاریخ سے لےکر حالیہ سیریا میں عمل پزیر ہوئی خوں ریزی کا جائزہ لیا جائے تو امریکا کی سفاکی اور ستم ظریفی صاف طور پر عریاں ہو جائے گی ۔ان تمام قتال میں کسی نہ کسی طرح امریکہ کی شمولیت رہی ہے۔اس کا بس ایک ہی مقصد و مدعا رہا کہ خواہ کتنی بھی لاشیں بچھ جائیں لیکن میرے اسلحہ کا بازار گرم رہنا چاہئے۔یہ تجارت بھی عام دنوں کی مانند قیمتوں پر نہیں ۔چونکہ یہ سودا امرجنسی میں ہوا کرتا ہے ۔چنانچہ ایسے مواقع پر عام دنوں کی بنسبت بہت ہی زیادہ قیمت پر سودا ہوتا ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ فروخت کرنے والے کو یہ علم ہوتا ہے کہ خریدنے والا انتہائی مجبور ہے۔اسے ہر حال میں اور ہر قیمت پر اسلحہ خریدنا ہی ہے۔کیونکہ اس کا وجود خطرے سے دوچار ہے۔اگر وہ اسلحہ کا سودا نہیں کرےگا تو وطن عزیز ہاتھوں سے نکل جائے گا ہی۔شہریوں کی زندگی تمام ہو جائے گی۔
خود کو فاتح آعظم تصور کرنے والے امریکہ کی تاریخ ہے کہ جب اور جہاں بھی اس نے میدان جنگ میں قدم رکھا وہیں اسے زبردست شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا اور جان ومال کے عظیم خسارے کے بعد اس کی فوج کو خالی ہاتھ اپنے ملک واپس ہونا پڑا۔ امریکی فوج کو پسپائی سے دوچار ہونا پڑا۔مذکورہ جنگ میں امریکہ کو زبردست جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ویتنام جنگ میں عجب ہی منظر نظر آیا ۔وہاں دو فوجوں کے درمیان جنگ تو تھی لیکن اس جنگ میں اہم کردار وہاں کے عوام خصوصاً خواتین نے نبھایا ہے۔ہرکھڑکی،دریچوں اور دروازوں سے گولیاں چلنی شروع ہو گئیں۔نتیجہ کے طور پر امریکی فوج کی پیش قدمی پر قدغن لگ گیا۔اس کا ایک ایک قدم بڑھانا موت کی دعوت ہو گیا۔بلا شبہ ویت نام جنگ میں ہلاکتیں بڑے پیمانے پر ہوئیں۔لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ وہاں امریکی فوجیوں کی ہلاکت بھی بےشمار ہوئی۔پنٹاگون کے مطابق ویتنام میں کم و بیش پچیس ہزار امریکی فوجیوں کی ہلاکت عمل میں آئی ہے ۔لیکن چشم دید گواہ کے مطابق حقیقت کچھ اور ہی ہے۔تجزیہ نگاروں کے مطابق اس جنگ میں پینٹاگون کی اطلاع سے کہیں زیادہ امریکی افواج کی اموات پیش آئی ہیں۔
ویت نام کی جنگ سے قبل کیوبا کی جنگ کو دنیا کا کون سا باشعور انسان فراموش کر سکتا ہے۔جہاں امریکی فوج کو زبردست حزیمت سے دوچار ہونا پڑا ۔کیوبا کی اشتراکی حکومت نے کبھی بھی امریکہ کو فاتح عالم قبول نہیں کیا اور نہ ہی اسے آنکھوں پر بٹھایا۔اج بھی کیوبا امریکہ اور امریکیوں سے نفرت کرتا ہے۔ایسا صرف اس لئے ہے کہ امریکی حکومت کو آج بھی یہ زعم ہے کہ ہم دنیا کے تمام ممالک کے سردار ہیں۔دنیا کی سب سے بڑی قوت ہیں ۔علاوہ ازیں فاتح عالم بھی ہیں ۔
خود کو فاتح آعظم تصور کرنے والے امریکہ کی تاریخ ہے کہ جب اور جہاں بھی اس نے میدان جنگ میں قدم رکھا اس کے پائوں اکھڑ گئے اور اسے عظیم خسارے سے دوچار ہونا پڑا۔لیکن جس کے یہاں تکبر ہوتا ہے اس کی فطرت میں بےحیائی بھی ہوتی ہے۔ایسی شکست فاش کے باوجود اس کو یہی زعم ہے کہ میں دنیا کا سردار ہوں۔
جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس نے سوچا ہوگا کہ یہ ایک چھوٹا سا کمزور ملک ہے۔یہ ابھی جدید اسلحہ سے محروم ہے۔اس کو تو بس یوں ہی نگل جایا جائےگا۔لیکن وہ جنگ بھی اسے کافی گراں گزری۔وہاں امریکی فوج کا کتنا جانی نقصان ہوا یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ پاکستان کا ایک کولڈ اسٹوریج امریکی فوجی کی لاشوں سے بھرا پڑا تھا۔بلا شبہ اس جنگ میں افغانستان کو بھی بہت زیادہ جانی و مالی نقصانات سے دوچار ہونا پڑا۔لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس جنگ میں امریکہ کو جو ذخم لگا ہے اسے وہ کبھی فراموش نہیں کر سکتا ہے۔ بالآخر 20 سالوں بعد امریکہ کو کچھ اس طرح دم دبا کر فرار ہونا پڑا کہ اسے اپنا اسلحہ تو کیا جہاز اور ہیلی کاپٹر بھی ساتھ لے جانے کا موقع نہیں ملا۔۔امریکہ کو فرار ہوتے ہوتے بھی کثیر تعداد میں جانی نقصان ہوا۔ زندگی بچا کر فرار ہونے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سارے امریکی فوجی اپنا ہوش و حواس ہی گنوا بیٹھے تھے۔اتنی کثیر تعداد میں توپ ،ٹینک،میزائل،ہیلی کاپٹر اور جہاز وغیرہ چھوڑ جانا امریکی بزدلی اور خوف و دہشت کا آئینہ دار ہے۔یہی حال امریکی فوج کا عراق کی سرزمین پر ہوا ۔عظیم فتح کا دعویٰ کرنے والے کو سب کچھ چھوڑ کر ارض عراق سے فرار ہونا پڑا۔یعنی امریکہ جہاں بھی فتح و نصرت کا خواب لے کر گیا وہیں اسے شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا ۔ہاں اتنا ضرور ہوا کہ اس کے منحوس قدم جہاں پڑے وہ ملک بالکل تباہ و برباد برباد ہو کر رہ گیا۔یہ کس قدر مضحکہ خیز امر ہے کہ اس قدر شکست خوردہ ملک امریکہ آج بھی خود کو فاتح آعظم تصور کرتا ہے اور پوری دنیا پر حکومت کرنے کا خواب سنجوئے ہے۔
تائوان کو ایک ترقی پزیر ملک کہا جاتا ہے جو کبھی چین ہی کا حصہ تھا۔وہ بھی کیسے یوکرین کی مانند امریکہ کے سہارے روس جیسی عظیم قوت کے خلاف جنگ میں قدم رکھنے کی منصوبہ بندی کر لی۔اس تصور سے عقل حیران ہے۔جب کہ امریکہ کی خود اپنی کئی شکستیں کھلی کتاب کی مانند صاف اور واضح ہیں۔معلوم نہیں یوکرین کو کیا کیا گمان تھا کہ امریکہ ساتھ ہوگا تو ہم روس کو چشم زدن میں شکست فاش دے کر کریمیا کو فورآ بازیاب کر لیں گے اور ممکن ہوا تو روس کے مزید کچھ حصے کو یوکرین میں شامل کر لیں گے۔چونکہ امریکہ و روس میں دیرینہ مخاصمت و عداوت ہے ۔اس لئے یوکرین کے کاندھے پر بندوق رکھ کر امریکہ نے چلانا چاہا۔جنگ کا آغاز ہوا۔اس جنگ میں امریکہ کا تو کوئی خاص نقصان نہیں ہوا لیکن یوکرین مکمل طور پر تباہ و برباد ہو گیا۔کئی گائوں اور روس کے قبضے میں چلے گئے۔ کثیر تعداد میں انسانی ہلاکت الگ پیش ائی۔ اگرچہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ جنگ ابھی بھی جاری ہے اور یوکرینی فوج ابھی بھی سینہ سپر ہو کر محو جنگ ہے۔لیکن اس امر کی تردید بھی ممکن نہیں ہے کہ یوکرین تنہا جنگ نہیں لڑی رہا ہے۔بلکہ امریکہ کے علاوہ کئی ناٹو ممالک یوکرین کو اسلحہ کے باہم جنگ جو فوجی بھی مہیا کرا رہے ہیں۔پھر بھی تنہا روس کو پسپا کرنے سے قاصر ہیں۔یہاں یہ بھی ایک قابل غور امر ہے کہ اتنی حربی مدد کے باوجود یوکرین شکوہ کناں ہے کہ امریکہ حسب ضرور اس کی مدد نہیں کر رہا ہے جبکہ انتہائی اصرار کے بعد امریکہ نے یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والی میزائل بھی مہیا کرا چکا ہے ۔یوکرین کے صدر کی خواہش ہے کہ اب میزائلیں روس کے داخلی حصے میں گرنی چاہئیں۔تاکہ جو تباہی یوکرین میں عمل پزیر ہوئی ہے وہی سب روس میں بھی عمل پزیر ہو۔دوسری جانب امریکہ یہ اچھی طرح سمجھ رہا ہے کہ اگر روس کے داخلی حصے کو نشانہ بنایا گیا تو روس امریکہ کے داخلی حصے پر بھی حملہ آ ور ہوگا ۔پھر دونوں ہی جانب زبردست جانی و مالی نقصانات عمل میں آئیں گے۔اس سے بھی بڑی بات یہ کہ دونوں ہی جانب کے انفراٹکچر تباہ ہوں گے۔اس طرح دونوں ہی ممالک کی اقتصادیات زبردست طریقے سے متاثر ہوں گی ۔اس لئے امریکہ کی پالیسی یہ ہے کہ یوکرین کو اتنا ہی سامان حرب دیا جائے جس سے یہ جنگ جاری رہے اور روس اقتصادی و حربی طور پر کمزور ہوتا رہے۔امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ ہمارا تو مشترکہ نقصان عمل میں آرہا کیونکہ یوکرین کی مدد کئی ممالک مشترکہ طور پر کر ہے ہیں اور روس تنہا سبھوں کا مقابلہ کر رہا ہے۔اس لئے اگر روس کو تباہ و برباد کرنا ہے تو جنگ کو جاری رکھنا ہی ہوگا .اسی مقصد کے تحت ابھی بھی یہ جنگ جاری ہے۔۔اس ناچیز کو یوکرین کے صدر کی نادانی پر افسوس آتا ہے کہ امریکہ کے مقاصد کے حصول کے لئے انہوں نے اپنے ہی وطن عزیز کو ملبے میں تبدیل کروا دیا اور پورے ملک کو قبرستان بنا کر رکھ دیا۔اتنا ہونے کے باوجود زیلینسکی نے عقل کے ناخن نہیں لئے۔یہ حیرت کی بات نہیں تو اور کیا ہے۔
اب جنگ کا ایک دوسرا محاذ کھلنے والا ہے۔چین اور تائیوان کے درمیان جنگ کا اندیشہ ہر لمحہ قوی سے قوی تر ہوتا جا رہا ہے۔یہ جنگ بھی روس اور یوکرین کی مانند ہی متوقع ہے۔کیونکہ یوکرین ہی کی طرح تائیوان نے بھی چین سے محاذ آرائی کا منصوبہ مکمل کر لیا ہے۔جبکہ تائیوان کے سربراہان امریکہ کی تاجرانہ جنگی پالیسی سے بخوبی واقف ہوں گے۔شاید تائیوان چین کی حربی قوت کو نظر انداز کر کے امریکہ کی بھیک کے بھروسے اپنے وطن عزیز اور اپنے عوام کے مقدر سے کھلواڑ کرنے پر آمادہ ہے۔فی زمانہ چین بھی روس ہی کی مانند ایک عظیم حربی قوت ہے۔جسے نظر انداز کرنا کسی بھی ملک کے لئے زیاں رسا ہو سکتا ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تائیوان جس امریکہ پر تکیہ کئے ہے۔وہ یوکرین اور روس جنگ میں بہت کمزور ہوا ہے۔کیونکہ اس جنگ میں یوکرین جو اسلحہ یا بم بارود یا میزائل اور جہاز استعمال کر رہا ہے وہ بیشتر امریکہ کے ہی ہیں۔مذکورہ جنگ میں بہت سارے امریکی جہاز،ہیلی کاپٹر،میزائلیں،ڈیفینس سسٹم وغیرہم برباد ہوئے ہیں ان کی زیاں کا اثر امریکہ کی حربی صلاحیت پر مرتب ہونا طئے ہے۔اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ ادھر چھ ماہ میں امریکہ حربی طور پر کچھ کمزور ہوا ہے۔یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اب ناٹو ممالک یا دیگر مغربی ممالک بھی امریکہ کا اس طرح ساتھ نہیں دے سکتے جس طرح یوکرین جنگ میں دیا ہے ۔اس کا خاص سبب یہ ہے کہ ان ممالک کی کمر بھی کسی حد تک یوکرین کی مدد کرنے میں ٹوٹ چکی ہے۔کوئی بھی ملک کسی اور کے لئے اپنی تباہی و بربادی کو دعوت نہیں دے سکتا ہے۔چنانچہ اب ہر ملک امریکہ کا ساتھ بہت سوچ سمجھ کر ہی دے گا۔
دوسری جانب چین اور تائیوان کے مابین رسہ کشی کئی مہینوں ہی نہیں بلکہ سالوں سے چل رہی ہے۔چین اس امر سے بھی اچھی طرح واقف ہے کہ اگر تائیوان سے جنگ چھڑی تو امریکہ ضرور چین کے مخالف کھڑا ہوگا ۔پھر اگر تائیوان اور چین کے درمیان جنگ ہوئی تو انتقام کی آگ میں جلتا بھنتا ہندوستان بھی چین کے خلاف اپنا محاذ کھول سکتا ہے۔چنانچہ چین نے جو جنگی تیاری کی ہوگی وہ درج بالا تمام حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے کی ہوگی۔اس تیاری کے لئے چین کو کافی وقت بھی ملا۔علاوہ ازیں اس کے یہاں کوئی اقتصادی مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی افرادی مسئلہ ہی ہے۔اس لئے اگر چین اور تائیوان کے درمیان جھنگ گا آغاز ہوا تو وہ واقعی قیامت خیز ہوگا۔کیونکہ اس متوقع جنگ سے صرف تائیوان اور چین و امریکہ ہی متاثر نہیں ہوں گے بلکہ کئی ایسے ممالک بھی متاثر ہوں گے جن کا اس جنگ سے دور دور کابھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔اگر جنگ واقعی شروع ہوتی ہے تو یہ اندیشہ غالب ہے کہ تائیوان کا حال بھی یوکرین ہی کی مانند نہ ہو جائے۔اللہ خیر کرے۔
benamgilani@gmail.com