کیا ہم اپنے آبا و اجداد کی جانشینی کے لائق ہیں؟

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 19th Sept

محمد سروش عنبر، پٹنہ

 

گزشتہ 15 اگست (2022) کوبھارت کی آزادی کی 75 ویں سالگرہ منائی گی۔ اس بار کا ’’جشن آزادی‘ آزادی کا امرت مہوتسو کے طور پر منایا گیا۔اس کے تحت ہر گھر ترنگا مہم کا انعقاد کیا گیا ہے تاکہ اپنے قومی پرچم ترنگا کو گھر گھر پہنچایا اور لہرایا جا سکے۔ اس مہم کے تناظر میںبہت ہی اہم اور خاص بات یہ ہے کہ بھارت کے بیشتر لوگ اپنی مذہبی وابستگیوں سے قطع نظر 15 اگست کو آزادی اور خودمختاری کی علامت کےطور پر مناتے ہیں۔ تاہم، افسوسناک حد تک عدم بیداری کی وجہ سے ہمارے بہت سے نوجوان بالخصوص مسلم نوجوان، بھارت کی جدوجہد آزادی میں اپنے آبا و اجدادکے دیوانہ وا ر کردار اور ان کی قربانیوں سے پوری طرح واقف نہیں ہیں۔چنانچہ جشن آزادی میں مسلم نوجوانوں کی جانب سے جس اعتماد اور جوش و خروش کا مظاہرہ ہونا چاہئے، وہ عموماََ دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔
ہمارے نوجوانوں کو ، تحریک آزادی میں مسلمانوں کی قربانیوں کا ایک پہلو ہمیشہ یہ ذہن نشیں رہنا چاہئے، تاکہ جہاں کہیں اور جب کبھی حب الوطنی کی بات چلے تو وہاں یہ اپنی باتیں پورے وقار اور اعتماد کے ساتھ رکھ سکیں۔ بیرسٹر سیف الدین کچلو نے جلیانوالہ باغ قتل عام، رولٹ ایکٹ کے خلاف احتجاج کیا اور جناح کے دو قومی نظریہ کی مخالفت کی، بھارت کی جنگ آزادی کی تاریخ میںفضل حق خیرآبادی کا نام اس وجہ سے جلی حرفوں میں لکھا ہوا ہے کہ انھوں نے 1857 کی ، بھارت کی پہلی آزادی کی جدوجہد کے دوران مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف لازمی طور پر لڑنے کے لیے ایک فتویٰ دیا تھا۔ بعد میں، انہیں انڈمان کی سیلولر جیل بھیج دیا گیا، جسے کالاپانی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
حسرت موہانی نے انقلاب زندہ باد کا نعرہ دیکر وطن عزیزکے نوجوانوں کے سینے کو آزادی کی آگ سے روشن کردیا۔ تیتو میر نے 15 ہزار لوگوں کو اکٹھا کیا اور بنگال کو برطانوی نوآبادیاتی حکام کے چنگل سے آزاد کرانے کے لیے وہ کرنل سٹیورٹ سے لڑ گئے۔ مغفور احمد اعجازی نے تقسیم اور دو قومی نظریہ پر جناح کے اقدام کا مقابلہ کیا اور جناح کی مخالفت کے لیے آل انڈیا جمہور مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔ بیگم حضرت محل نے 1857 کی جدوجہد آزادی کے دوران انگریزوں کے خلاف بغاوت کرکے اور ان سے لکھنؤ کا کنٹرول چھین کر خواتین کو بااختیار بنانے کا بیج بویا۔ جدید بھارتی مسلمان خواتین بیگم حضرت محل کی بہادری اور جانبازی سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں، جنہوں نے جنگجو خواتین کی ایک بٹالین کو منظم کیا اور انہیں ہتھیار استعمال کرنے کا فن سکھایا۔انھوں نے انگریزوں کے بارے میں بھی معلومات اکٹھی کیں اور نانا صاحب سمیت دیگر آزادی پسندوں تک پہنچائیں۔ بعد میں انھوں نے جنرل ہیولاک کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا۔بھارت کی جدوجہد آزادی میں اشفاق اللہ خان کی حصہ داری کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ خا
ن عبدالغفار خان، جو سرحدی گاندھی کے نام سے مشہور ہیں، ان کا شمار صف اول کے مجاہدین آزادی میں ہوتا ہے۔انھوں نے گاندھی جی کی طرح اہنسا اور ستیہ گرہ کی حمایت کی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق طالب علم خان عبدالغفار خا ن نے مذہب کے نام ایک الگ ملک بنانے کے تصور کی ہمیشہ مخالفت کی۔ مولانا ابوالکلام آزاد صف اول کے مجاہد آزادی کے ساتھ ساتھ بحیثت ملک کے پہلے وزیر تعلیم بھارت میں ایجوکیشن فاؤنڈیشن اور دوسرے کئی اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قیام کے لئے جانے جاتے ہیں۔ ان کا یوم پیدائش ہندوستان بھر میں قومی یوم تعلیم کے طور پر منایا جاتا ہے۔ انہوں نے سول نافرمانی کی تحریک، ہندوستان چھوڑو تحریک اور ستیہ گرہ شروع کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ان کے علاوہ ایسے بے شمار مسلم مجاہدین آزادی کی فہرست تاریخ کے صفحات میں موجود ہے، جن کی جانب بہت کم لوگوں کی نگاہ جا پاتی ہے چنانچہ اب وہ دھیرے دھیرے سنجیدہ اور باشعور لوگوں کے خیالات سے بھی بڑی تیزی کے ساتھ معدوم ہوتے چلے جا رہی ہیں۔
بھارت کی جنگ آزادی کی تاریخ ان مسلمان ، ہندو اور سکھ مجاہدین آزادی کی بے پناہ کی قربانیوں کی متعدد مثالوں سے بھری پڑی ہے، جنہوں نے آزاد بھارت کی تعمیر میںاپنی جان اور مال کی ذرا سی بھی پروا نہیں کی۔ لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ ہمارے ہندو اور سکھ بھائیوں میں جہاں خواندگی کی شرح زیادہ ہے، وہیں وہ اپنےشاندار ماضی سے بھی واقف ہیں۔
خواندگی کی مایوس کن شرح والے مسلمان میڈیا اور سوشل میڈیا کے من گھڑت بیانیے پر یقین کرنے میں زیادہ مگن ہیں۔ یہی بے حسی ہمارے نوجوانوں کو بنیاد پرستی کے خول سے باہر نہیں نکلنے دیتی ہے۔حال ہی میںباٹلہ ہاؤس، دہلی سے ایک نوجوان کی آئی ایس آئی ایس اور اے کیو آئی ایس کے ساتھ وابستگی پر گرفتاری نےہمارے گمراہ نوجوانوں کی نظریاتی صف بندی پر کچھ سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔ ایسے میںضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم نوجوانوں کو ان کے آبا و اجداد کی حب الوطنی کی شاندارتاریخ سے رو بروکرایا جائے، ان کے دلوں کواپنے بزرگوں کی جانشینی کے جذبے سے سرشار کیا جائے،تاکہ وہ گمراہ ہونے سے بچ سکیں ساتھ ہی وہ گاہے بگاہے یہ محاسبہ کر سکیں کہ آیا ہم اپنے آبا و اجداد کی جانشینی کے اہل ہیں بھی یا نہیں ۔
*******************************
saroshamber.dream@gmail.com
*******************************