Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 19th Oct.
اللہ کی مدد یہ ہے کہ خالق کے منصوبے میں انسان کا کیا ر ول ہے وہ سمجھیں اور تاریخ کے متعلق اللہ کے منشا کو دریافت کرے اور اسکی منصوبے کے مطابق انسان عملی زندگی میں اپنا حصہ ادا کرے اگر انسان ایسا کرتا ہے تو وہ یقینی طور پر اللہ کی مدد کا مستحق ہے۔یعنی نیکیاں معروفات ہیں اور برائیاں منکرات اور آخرت یہ ہے کہ انسان یہ عقیدہ رکھے کہ وہ اپنے ہر عمل کے لئے اللہ کے حضور جواب دہ ہے۔
مسلمان جنکا ایمان اللہ، رسول، قرآن اور دین پر ہے ان کو دنیا کے مسائیل سے گزر کر اپنا حساب کتاب حشر کے میدان میں دینا پڑتا ہے اور وہ یہ ہے کہ انکے گناہوں کی پوچھ ایک ہی دفعہ ہوگی ‘جبکہ جو مالدار ہونگے ان سے بہ ایک وقت تین طرح کا حساب لیا جائیگا۔ یعنی: آمد،خرچ اور ساتھ ہی ساتھ بخالت کا بھی حساب ہوگا مالداروں کے پاس کب کہاں اور کس راستے سے حرام یا حلال کی دولت آئی اور اگر حلال کی دولت ہے تو اس میں سے جو جسکا حق بنتا ہے وہ ایمانداری سے ان سبھی حقداروں تک پہنچا یا نہیں؟ بغالت کا معاملہ تو اور بھی پریشان کن ہے جو لوگ اپنی اپنی تیجوری پر سانپ سپیروں کو بیٹھنے کا موقعہ دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہوگا، واضح کلام یہ ہے کہ دنیا پر مسلمانوں کا معاملہ صرف موت سے ہے، سزا اور جزا کا فیصلہ حشر کے میدان میں ہوگا، لہذا۔ مسلمانوں کو دنیا سے زیادہ دین پر عمل کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ جنت، دوزخ، حرام، حلال، زنا بالجبر، فتنہ فساد، ظلم تشدود، نفرت اور بھی کئی طرح کی برائیوں سے جو اسلام میں خبردار کیا گیا ہے وہ اس لئے نہیں کہ یہ سب دقیہ نوسی باتیں ہیں جسکو مرنے کے بعد کون دیکھتا ہے، سچ تو یہ ہے کہ ویسے تمام گنہگاروں کو اللہ نے دنیا پر بھی عبرت ناک سزا دیا ہے اور ویسی گناہ سے باز آنے کو کہا گیا ہے اور اگر آج کی دنیا جو ہوائوں میں پرواز کررہی ہے تو ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ زمین پر موجود زندہ اشیاء میں سے ہر ایک کا (Habitat) یہاں موجود ہے۔ مثلاً مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی، یعنی پانی مچھلی کا ہیبٹاٹ ہے، چنانچہ خالق نے مچھلی کے ساتھ اس کا ہیبیٹاٹ دریا اور سمندر کی صورت میں پیدا کیا ہے، لیکن اس دنیا میں صرف انسان ہی ایک ایسی مخلوق ہے جس کا کوئی ہیبٹاٹ نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ انسان کو اس دنیا میں کبھی کوئی (Fullfilment) نہیں ملتا اور اس کا سبب یہ ہے کہ انسان ’’احسن تقویم‘‘ کے اعتبار سے، احسن ہیبیٹاٹ کی ضرورت ہے، موجودہ دنیا کی محدودیتوں (Limitation) کی وجہ کر دنیا پر احسن ہیبٹاٹ نہیں بن سکتا، اسی لئے اس نے انسان کو بقدر ضرورت مِسکن عطا کیا ہے اور موت کے بعد ابدی زندگی کے لئے احسن ہیبیٹاٹ کا انتظام بھی کیا گیا ہے جس کا نام جنت (Paradise) ہے اور اسی کو ہم سب ’’احکم الحاکمین‘‘ کہتے ہیں، اس لئے اعلیٰ انصاف کا یہ تقاضا بھی ہے کہ انسان کو اس کی تخلیق کے مطابق ایک احسن ہیبیٹاٹ دیا جائے، کیونکہ خالق نے انسان کے لئے جنت کو اس کا ہیبیٹاٹ بنایا ہے۔ تو آئیے عربی، فارسی، انگریزی، ہندی اور اردو کے تعلق سے بھی کچھ ضروری باتوں کا تبادلہ خیال ہوجائے۔
عربی سے پتھر پگھلے فارسی سے تیل
انگریزی میں کچھ کچھ اردو سے کھیل
(۱) عربی زبان جو تاقیامت زندہ رہنے والی زبان ہے وہ عرب سے چل کر دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچی اور آسمانی کتاب قرآن کے تعلق سے بھی یہ معتبر اور متبرک زبان ہے، دنیا کی دیگر قوم جو عربی بول نہیں پاتی ہے وہ قرآنی آیت (دعائوں) کو یاد کرسکتے ہیں تاکہ زندگی کے ہر قدم پر اس کی محافظت دعاء خیر سے دائرے انسانیت میں درگزر ہوسکے۔
(۲) فارسی کب اور کہاں بولی جاتی ہے معلوم نہیں لیکن فارسی بولنا اور لکھنا پڑھنا وہ بھی آجکل کے دور میں لکڑی سے تیل نکالنے جیسا ہے۔
(۳ ) اردو زبان تو باکمال ہے جو اپنے بل بوتے پر دنیا میں روز روشن ہے اور جس طرح اسلام کی ٹھنڈی چھائوں میں خود بخود انسان انسانیت کا سہارا لیتا ہے اسی طرح اردو جیسی شیریں زبان، سیکھنے کے لئے انسان پروانا ہوجاتا ہے، لیکن افسوس یہ ہے کہ خود ہمارے لوگ کہا کرتے ہیں کہ اردو سے روزی روٹی کا مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اردو سے روٹی کا مسئلہ نہیں ہے تو آج لوگ یہ کہنے پر مجبور کیوں ہیں کہ دنیا میں بولی ووڈ کی کامیابی اور شہرت اردو سے ہی ملی ہے اور اردو چھوڑنے سے آج کے معاشرے میں ادب اور تہذیب کا کیا حال ہے دیکھ سکتے ہیں، سوائے اردو کہ دنیا کی ہر زبان Tough ہے اتنا ہی نہیں اردو دنیا کی تمام زبانوں کی (Laboratories) بھی ہے ساتھ ہی ساتھ اردو ایک ایسی انقلابی زبان ہے جس سے نفرت اور مسلک جیسی دیواروں کو بھی گرایا جاسکتا ہے، بشرطیکہ نفرت کرنے والے اور محبت کرنے والوں کو اردو کی شیریں زبان سے تعارف کروایا جائے اور اگر ملک کی تمام لائبریری میں لاکھوں کی تعداد میں اردو کی کتابیں بھری پڑی ہیں جس کو پڑھنے اور پڑھانے سے کسی نے روکا نہیں بلکہ خود اپنوں کا قصور یہ ہے کہ اردو داں جو بڑے بڑے اسکولرس، پروفیسر ہیں کسی نے بھی نئی نسلوں کو اردو پڑھنے پڑھانے کا جتن نہیں کیا جس کی وجہ کر بڑے بڑے اردو اسکولرس کی علمی روشنی انہیں کی کتابوں میں انہیں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ البتہ سرسید احمد خان جنہوں نے علی گڑھ یونیورسیٹی کو اپنے خون پسینہ سے سینچ کر آج سارے عالم میں مسلم علی گڑھ یونیورسیٹی کا نام روشن کیا ہے اور ہمارے لئے یہ بہت ہی فخر کی بات ہے کہ بہار (ریاست) میں بھی بڑے بڑے اردو ادب کے افسانہ نگار، رائیٹر موجود ہیں جو محفل اور مجلس کی خوبصورتی میں چار چاند لگادیتے ہیں لیکن مایوسی کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ نئی نسل کو اردو سیکھانے کے لئے اپنے بنگلے سے باہر نکلنا گوارا نہیں کرتے ہیں۔ آخیر ایسی شخصیت سے اردو کو کیا مل رہا ہے سوائے مایوسی کے اردو کی بہت ساری تحریکی تنظیم اٹھی اور بیٹھ گئی پتہ نہیں لوگ کہاں چلے گئے، غرض یہ ہے کہ آج جو اردو کی حالت ہے وہ اخباروں میں کسی تنظیم کے نام سے چھپوانے سے کام نہیں چلے گا اردو کے ساتھ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اردو کے لئے گھر گھر دستک دیا جائے، اور اس گھر کے والدین سے بچوں کو اردو پڑھنے پڑھانے کی اپیل کی جائے۔ اس لئے کے اردو زبان قوم کی شناخت ہے اور آزادی کے متوالوں کی یہ روحی آواز بھی تھی جس نے انقلاب برپا کیا اور غلامی کی زنجیروں کو توڑا ہے۔
(۴) جہاں تک انگریزی زبان کی بات ہے تو اس زبان کا کوئی متبادل نہیں ہے، اس کی خصوصیت یہ ہے کہ دنیا کا انسان نہ چاہتے ہوئے بھی انگریزی لکھنا پڑھنا اپنی مجبوری سمجھتا ہے، چونکہ سوئی سے لیکر جہاز تک اسی انگریز اور اسی انگریزی زبان کی دین ہے۔ جیسے Bolt، Nut، Switch وغیرہ دنیا کی تمام مشنری چیزوں سے جو انسانوں کی ضروریاتوں میں سے آتا ہے اسی انگریزی زبان میں تیار کی جاتی ہے۔ مختصر یہ کہ انگریزی خود اپنے آپ میں ایک ایسی حکمت ہے جس سے دنیاوی نظام کو بہت کچھ ملا ہے، ڈاکٹر، انجینئر، سائنٹسٹ ریل، جہاز، کمپیوٹر، ٹی وی وغیرہ بنانے والوں کو اسی زبان سے کامیابی ملتی ہے۔ حتیٰ کہ چین اور روس جیسے ترقیافتہ ممالک کو بھی اپنے اپنے Product کو اسی زبان کے نام سے دنیا کے بازاروں میں پیش کرنا پڑتا ہے۔
(۵) ہندی ملک کی راشٹر بھاشا ہے پنجابی، مراٹھی، گجراتی،بنگالی زبانوں کو دنیا کہ جس کونے میں بولی جائے لیکن ہم سب ہندی ہی کہلائیں گے۔
حیدر امام حیدر
رابطہ : 9334787273