Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 22nd Oct.
ڈاکٹر عبید الرحمن ندوی
استاد دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ
دنیا میں اگر کسی کو بقائے دوام حاصل ہے تو وہ صرف اللہ کی ذات ہے۔ارشاد خداوندی ہے’’زمین پر جو بھی ہیں فنا ہونے والے ہیں اور صرف آپ کے پروردگار کی ذات وہ احسان والی ، باقی رہ جانے والی ہے‘‘۔اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرح اس کے کلام یعنی قرآن کریم میں بھی ابدیت اور جامعیت ہے۔ لاریب قرآن ذی روح کلام ہے اور یہ واضح ہے کہ انسانی کلام کبھی بھی ذی روح نہیں ہوسکتاہے۔جہاں تک کلام ِ الٰہی کے تاثیر کا تعلق ہے تو وہ بہت ہی سامعہ نواز ، حسین اور اس میں اس قدر مٹھاس ، حلاوت اور دلکشی ہے کہ جن کو سن کر خود اہلِ زبان کا صرف کہنا ہی نہیں بلکہ اعتراف بھی تھا اور آج بھی ہے کہ اس طرح کاپُرتاثیر کلام سُنا ہی نہیںاور یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ نہ تو یہ انسانوں کا کلام ہوسکتاہے اور نہ جنات کا۔
بلاشبہ قرآن کریم سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے دلوں کی تمام کدورتوں اور نفرتوں کو دور کریں اور کلامِ الٰہی کو تن من کے ساتھ پڑھیں اور سنیں اور رحمتِ الہٰی سے ہمکنار ہوں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اگر کوئی برتن الٹا پڑاہو تو چاہے کتنی ہی موسلا دھار بارش کیوں نہ ہو اس کے اندر ایک بوند پانی نہیں جائے گا۔ یہ بارش کا قصور نہیں ہے بلکہ برتن کا قصور ہے۔ لہٰذا ہمیںچاہیے کہ ہم اپنے دلوں کے برتن کو سیدھا رکھیں یعنی کلامِ الٰہی سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہمہ تن متوجہ ہوں۔ ارشادِ خداوندی ہے’’اس قرآن میں نصیحت ہے اس کے لیے جس کے اندر دل ہوتاہے ۔ اورجس کے اندر دل کے بجائے سل ہو تو پھر کیا مزہ۔ ہمہ تن گوش ہوکر بیٹھیں‘‘۔
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ دریا اپنا راستہ خود بنالیتاہے ۔ قرآن کریم بھی رحمت کا وہ دریا ہے جولوگوں کے سینوں میں اپنا راستہ خود بنالیتاہے۔ چنانچہ جو بھی کلامِ الٰہی کو غور سے پڑھتاہے یا سنتاہے تو قرآن بھی اس کے سینے میں اترتا چلاجاتاہے۔تاریخ شاہد ہے کہ قرآنِ کریم کو صرف سن کر بے شمار لوگوں نے اسلام قبول کیاہے ۔ اس میں سرِ فہرست خلیفہ دوم حضرت عمر بن الخطابؓ کو رکھاجاسکتاہے جنہوں نے قرآن کریم کے سورۂ طہ کی ابتدائی چند آیتوں کو سن کر اسلام قبول کیاتھا۔ نامور مخضرم شاعر لبید بن ربیعہ نے اسلام قبول کیا اور کلامِ الٰہی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ باوجود پیرانہ سالی کے پورے قرآن کریم کو حفظ کرلیااور شعر وشاعری کو بالکل ہی ترک کردیا۔ روایت میں آتا ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے صرف ایک شعر کہاتھا۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ قرآن کریم کے بعد شعروشاعری کی مجھے قطعًا ضرورت نہیں ہے۔
وہ نسخۂ کیمیا قرآن ہی تو تھا جس نے عرب کی زمین ہلاکر رکھ دی تھی ‘‘۔ صحابہ کرامؓ اسی قرآن کو سینے سے لگاکر نکلے تھے اور جدھر بھی ان کے قدم پڑتے تھے کامیابی ان کے قدم چومتی تھی۔ یہ قرآن ہی کی برکت ہے کہ افریقہ کے جنگلوں میں رہنے والے درندوں نے صحابہ کرامؓ کے لئے جنگل خالی کردئیے، یہ قرآن ہی کی برکت ہے کہ دشت وصحرا بھی صحابہ کرامؓ کے لئے ان کے مشن کی تکمیل میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ ؎دنیا کی تقدیر کو بدل کر رکھ دیاتھا۔ وہ قرآن پڑھتے تھے تو اس پر عمل بھی کرتے تھے۔ ادھر قرآن مکمل ہوتاتھا اور ادھر ان کا عمل قرآن کے مطابق ہوجایاکرتاتھا۔ وہ صرف حافظ قرآن نہ تھے ، وہ صرف قاری قرآن نہ تھے بلکہ وہ عاملِ قرآن ہواکرتے تھے، وہ ناشرِ قرآن ہواکرتے تھے ، وہ عاشقِ قرآن ہواکرتے تھے‘‘۔ (قرآن عظیم الشان ، صفحہ ۸۴-۸۳)
مولانا شبیر احمد عثمانی اپنی کتاب ’’اعجاز القرآن ‘‘میں تحریر فرماتے ہیں:’’ کیا کوئی ایسا لکچرار آپ کی نظر میں ہے جو ہر ایک مضمون پر یکساں بولنے کی قدرت رکھ سکتاہو۔ کوئی آدمی ہرمضمون کے بیان پر یکساں قدرت نہیں رکھ سکتا، بلکہ بڑے بڑے قصیدوں میں دوہی چار اشعار منتخب ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ کسی متکلم کو ہرمضمون پر پوری قدرت نہیں ہوتی۔ چنانچہ علمائے ادب کا اعتراف ہے کہ امر ؤ القیس گھوڑوں کی تعریف اچھی کرتاہے۔نابغہ خوف وخشیت میں، اعشی شراب کی طلب اور تعریف میں، زہیر رغبت ورجاء میں اچھالکھتاہے جیسے نظامی وفردوسی رزم وبزم میں، سعدی وعظ وپند میں تفوق رکھتاہے۔لیکن دوسرے فن میں جاکر ان کی ساری جولانیاں ختم ہوجاتی ہے۔
قرآن کو اول سے آخرتک دیکھ لو کس قدر مضامین مختلفہ کی روہے، جوکہ نہایت روانی، سلاست، آب وتاب اور شان وشوکت سے بہ رہی ہے اور ہرمضمون کو کس قدر قوت اور جزالت وفصاحت کے ساتھ بیان کیاجاتاہے ۔ کہیں معاش کا بیان ہے، نکاح وطلاق کے قواعد کی تعلیم ہے ، کہیں فرائض میّت تقسیم کی جاتی ہے ، کبھی نماز روزہ کا وعظ ہے ، کبھی جہاد کا بیان ہے ، لڑائی کے نقشے کھینچے جاتے ہیں، کہیں سنین ماضیہ کے تاریخی واقعات ہیں، کبھی دلوں کو رُلا نے والی پندونصائح بیان کی جاتی ہے، کبھی بہشت کا تنعم سامنے ہے ، کبھی دوزخ کا عذاب ۔یہ سب کچھ ہے مگر طرزبیان میں کوئی سستی نہیں، کمزوری نہیں، انحطاط نہیں، ہرموقع پر اقرار کرنا پڑتاہے کہ اس کے مقابلہ سے تمام جن وبشر عاجز ہیں۔
اول سے آخر تک ایک ہی اسلوب اور ایک ہی طرح کا زور اور ایک ہی رنگ ڈھنگ اور سارے کلام کی یہ یکسانیت ہی پتہ دے رہی ہے کہ یہ کسی مخلوق کا بیان یا کسی کمیٹی کاکلام نہیں، بلکہ یہ اس کا کلام ہے جس کی صفات سب کی سب کامِل غیر متبدل ، لازوال اور نقص وفتور سے منزّہ ہیں۔’’اور اگر (قرآن) خدا کے سوا (کسی اور) کے پاس سے (آیا) ہوتا تو ضرور اس میں بہت سا اختلاف پاتے‘‘۔ مختصراًقرآن کریم وہ نسخۂ کیمیا ہے جس میں بنی نوع انسان کے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ یہ انسانیت کے لیے منشورِ حیات بھی ہے ، دستورِ حیات بھی ہے، ضابطۂ حیات بھی ہے بلکہ پوری انسانیت کے لیے آبِ حیات ہے۔