Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 19th Oct.
ملک کی سب سے پرانی پارٹی کانگریس کو 24 سال بعد گاندھی خاندان سے باہر ملکارجن کھڑگے کی شکل میں بدھ کے روز اپنا صدر مل گیا ۔یہ وہی ملکارجن کھڑ گےہیں، جن کی نظروں کے سامنے ان کی زندہ ماں کو فسادیوں نے اس وقت آگ کے حوالے کر دیا تھا، جب وہ پانچ برس کے تھے۔اس واقعہ کے سلسلے میں سینئر صحافی کرشن کانت نے لکھا ہے کہ آزادی سے پہلے کرناٹک پر نظام کی حکومت تھی۔ تقسیم کے بعد ان کے گاؤں وروٹّی میں بھی ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ نظام کی فوج نے گاؤں پر حملہ کر دیا۔ اس فوج میں کچھ لٹیرے بھی تھے۔ انہوں نے پورے گاؤں کو آگ لگا دی۔ اس گاؤں کے ایک گھر میںایک ماں کو اس کے پانچ سالہ بچے کے سامنے لوگوں نے جلا دیا۔معصوم بچہ ماں کو جلتے ہوئے دیکھنے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکا۔
بچے کے والد نے اسے فسادیوں سے بچاکر گاؤں سے دور لے کر چلے گئے۔ تین ماہ تک جنگل میں رہے۔ بعد میں مزدوری کرتے ہوئے اپنے بچے کی پرورش کی۔ سب سے قابل تعریف بات یہ ہے کہ باپ نے بچے کو کہیں کام سے لگانے کے بجائے دل سے پڑھایا لکھایا۔ وہ بچہ بڑا ہو کر اپنے ضلع کا پہلا دلت وکیل بن گیا۔ پھر یونین لیڈر، پھر ایم ایل اے، کرناٹک حکومت میں وزیر، پھر ایم پی اور پھرمرکزی حکومت میں وزیر یعنی مختلف حیثیتوں سے سماجی سروکار سے جڑ کر عوام کی خدمت کرتا رہا۔ اور آج وقت نے ملک کی سب سے پرانی پارٹی کانگریس کا قومی صدر بنا دیا ہے۔بلا شبہہ ملکارجن کھڑ گےکی زندگی کو نا مساعد حالات نے بہت ہی سنجیدگی سے آراستہ کیا ہے۔
آزادی کے بعد مہاتما گاندھی نے اپنی خواہش ظاہر کی تھی کہ کانگریس کے صدر کے عہدے پر کسی دلت طبقہ سے تعلق رکھنے والے شخص کو ہونا چاہیے۔ تاہم اس وقت ایسا نہیں ہو سکا تھا۔ آزادی کے تقریباً دو دہائیوں بعد، بابو جگجیون رام کانگریس کے صدر بننے والے پہلے دلت تھے۔ 1970 کے بعد کانگریس کو ایک بار پھر ایک دلت صدر ملا ہے۔ کانگریس کے لئے یہ موقع ہے کہ وہ کہے کہ ایسا کرکے اس نے مہاتما گاندھی کا خواب پورا کیا ہے۔
کانگریس کے صدر کے امیدوار کے طور پر ملکارجن کھڑگے کو اعلانیہ طور پرگا ندھی خاندان کی حمایت بھی حاصل تھی ۔لہٰذا، ملکارجن کھڑگے کی جیت پہلے سے ہی یقینی مانی جا رہی تھی۔ ووٹوں کی گنتی کے دن تک کانگریس لیڈروں کے جو بیانات سامنے آ رہے تھے، ان سے بھی یہ بات ظاہر ہو رہی تھی کہ نتیجہ کس کے حق میں آنے والا ہے۔ حالانکہ اس سلسلے کی تمامتر چہ میگوئیاں اب پیچھے رہ گئی ہیں ۔ملکارجن کھڑگے اب پارٹی کے نئے صدر ہیں۔ اب کانگریس کے نئے صدر کی حیثیت سے درپیش چیلنجز سے متعلق سوالات ان کے سامنے ہیں۔ اگر ہم ان چیلنجوں کے حوالے سے بات کریں تو پارٹی کے صدر بننے کے ساتھ ہی دو ریاستوں ہماچل پردیش اور گجرات میں اسمبلی انتخابات کا ذکر سب سے پہلے کیا جائے گا۔ہماچل پردیش کے انتخابات کی تاریخ قریب آ ر ہی ے اور ممکن ہے گجرات کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان بھی دیوالی کے بعد ہو جائے۔ پچھلے کچھ سالوں میں کانگریس کو کئی ریاستوں میں عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس وقت پارٹی کے پاس صرف دو ریاستیں راجستھان اور چھتیس گڑھ رہ گئی ہیں۔لہٰذا، ہماچل اور گجرات کے انتخابات پارٹی کے لیے کئی طرح سے خاص ہیں، یہ الیکشن پارٹی کے نئے صدر کے لیے پہلے امتحان جیسا ہے۔ دونوں ریاستوں میں کانگریس سیدھی لڑائی میں ہے اور پارٹی بہتر نتائج کی امید کر رہی ہے۔ ایسے میں نئے صدر پر جو دباؤ ہے ، اسے آسانی کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے۔ تیاری کے لیے بہت کم وقت ہے۔
یہ فطری بات ہے کہ پارٹی کے صدر کی حیثیت سے ملکارجن کھڑگے کے طریقہ کار کو بی جے پی اپنی تنقید کا نشانہ تو بنائیگی ہی لیکن لیکن پارٹی کے اندر سے بھی کئی طرح کے سوالات اٹھیں گے۔ صدر کے عہدے کی دوڑ میں شامل ششی تھرور بار بار پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے میں تبدیلی کی بات کر رہے تھے۔ انتخابات سے پہلے بھی وہ تبدیلی کی بات کرتے رہے ہیں۔ گاندھی خاندان کے ریموٹ کنٹرول جیسے سوالات کا بھی انھیں سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ جی۔ 23 لیڈر سکون کے ساتھ انھیں رہنے دیں گے۔ ششی تھرور جو الیکشن ہار چکے ہیں، ان کے سوالات بھی سامنے آئیں گے۔ اس کے علاوہ راجستھان میں جہاں طویل عرصے سے پارٹی کے اندر خلفشار مچا ہوا ہے۔یہ معاملہ بھی جلد ہی منظر عام پر آئے گا۔اس کے علاوہ ئی بھی دیکھنے کی بات ہوگی کہ نئے صدر ملکارجن کھڑگے پارٹی صدر کے طور پر گاندھی خاندان کے ساتھ کس طرح تعلقات برقرار رکھتے ہیں۔ حالانکہ سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کے مخلصانہ روّیوں سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ پارٹی کی شیرازہ بندی میں نئے صدر کو کچھ زیادہ پریشانی نہیں ہوگی۔اور زیادہ تر فیصلے وہ اپنی سطح سے لینے کے اہل ہونگے۔ اس انتخاب کو بیشتر سیاسی مبصرین کانگریس کے نئے دور کا آغاز مان رہے ہیں۔