باپو ہم شرمندہ ہیں !

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 2nd Oct.

کل بابائے قوم مہاتما گاندھی کی جینتی تھی۔ کل دن بھرسوشل میڈیا پرمہاتما گاندھی کی معنویت پر ہی بحث ہوتی رہی۔مہاتما گاندھی اوران کے نظریات کی حمایت کرنے والے جہاں گاندھی کی خدمات کو یاد کرتے ہوئے انھیں خراج عقیدت پیش کرتے رہے وہیں گوڈسے کے عقیدتمند ملک کی تقسیم اور سردار بلببھ بھائی پٹیل کی جگہ پنڈت جواہر لال نہرو کو بھارت کا پہلا وزیر اعظم بنانے کے ذمہ دار مہاتما گاندھی کو مانتے ہوئے انھیں تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔محالفین کا ایک گروہ تو’’مہاتما ‘‘ اور ’’راشٹر پتا ‘‘ کا لقب دینے کےموضوع پر ہی بحث کرتا ہوا نظر آیا۔وہ مہاتما گاندھی کو ہندو دشمن قرار دے رہے تھے۔لیکن راشٹرپتا مہاتما گاندھی اور ان کے نظریات کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ کھڑے لوگ بھی اینٹ کا جواب لگاتار پتھر سے دے رہے تھے۔گاندھی کی حمایت کرنے والوں کی باتیں مدلل تھیں جبکہ گوڈسے کی حمایت کرنے والوں کے لب و لہجے سےیہ ظاہر ہو رہا تھا کہوہ وھاٹس ایپ یونیورسیٹی کے پروڈکٹ ہیں۔
سوشل میڈیا پر مہاتما گاندھی کی حمایت اور مخالفت میں آئی باڑھ کے درمیان آئی آئی ٹی ، دہلی کے ایک طالب علم ہمانشو سنگھ کا ایک انعام یافتہ مضمون بھی گشت کر رہا تھا ،جو شاید ان تمام لوگوں کے تبصرے پر بھاری تھا جو گوڈسے کی حمایت میں کسی بھی حد سے گزرنے کے لئے تیار نظر آرہے تھے۔ہمانشو سنگھ نے لکھا ہے ’’گاندھی جدید بھارت کے سب سے بڑے ہندو تھے، میں ایک اونچی ذات کے ہندو گھرانے سے ہوں، گاندھی جی کی سرپرستی کرنے والوں میں پلا بڑھا ہوں، جب تک میں جوان نہیں تھا، میں گاندھی جی کو جانے بغیر ان کی مخالفت کرتا رہا اور جو لوگ گاندھی جی کے حق میں بات کرتے تھے، مذاق اڑاتا رہا، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔
ہمانشو سنگھ نے لکھا ہے ’’جس دن سے میں واقعی گاندھی جی کو سمجھنے لگا، میں نے سمجھنا شروع کر دیا کہ گاندھی جی کے خلاف بولنے والوں کا ایک بڑا حصہ وہ ہے جو گاندھی جی کو نہیں جانتا ہے۔ اور جو لوگ گاندھی جی کو جانتے ہوئے بھی ان کی مخالفت کرتے ہیں، انہی لوگوں نے گاندھی جی کے خلاف ان پڑھ اور ناخواندہ کی فوج کھڑی کر دی ہے۔ لیکن یہ سمجھنے کی بات ہے کہ مہاتما گاندھی کے فلسفے کو جاننا اور اس کو سمجھنا دو مختلف چیزیں ہیں۔ گاندھی جی کا فلسفہ جتنا سادہ ہے اتنا ہی وسیع ہے ،لیکن سمندر کی طرح گہرا اور وسیع ہونے کے باوجود اسے جذب کرنے کے لیے جس سادگی کی ضرورت ہے وہ نایاب ہے۔
گاندھی جی اس آدمی کی طرح میری زندگی میں آئے، جسے میں بچپن میں بوڑھاآدمی کہہ کر چھیڑتا تھا، جس کی لاٹھی کو لیکر میں بھا گ جاتا تھا، لیکن گاندھی کو سمجھنے کےبعدمجھے یہ بات سمجھ میں آئی کہ کسی شخص نے چلتے چلتے مجھے ایک ایسا راستہ بتا گیا جو سیدھے مجھے میری منزل کی جانب لے جاتی ہے، جو میری زندگی کو متوازن بنا تی ہے۔یہ وہ شخص ہے جو ایک گال پر تھپڑ کھانے کے بعد دوسرے گال کو آگے بڑھا دینے کی بات کرتا ہے۔آخر کوئی عام آدمی ایسا سر درد کیوں خریدے گا؟ پہلے میں نے یہی سنا تھا کہ پاکستان گاندھی جی نے ہی بنوایا تھا اور وہ بھی صرف مسلمانوں کے فائدے کے لیے۔ لیکن وقت کے ساتھ یہ ثابت ہو گیا کہ اس کی بنیاد میں پروگنڈہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ کافی دیر تک گاندھی جی پر غور کرنے کے بعد میں یہ بھی سمجھ گیا کہ درحقیقت کوئی بھی شخص گاندھی جی کے بتائے ہوئے ہندو مذہب کی شکل میں کم ہندو یا زیادہ ہندو ہو سکتا ہے، سچے ہندو ہونے کا دعویٰ بھی کر سکتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ناستک بھی ہندو ہو سکتا ہے، لیکن وہ کٹر ہندو نہیں ہو سکتا، کسی بھی ہندو کے لیے، اس کا جنونی اور کٹر ہندو ہونے کا دعویٰ اسے’’ ہندوتو‘‘سے نااہل کر دیتا ہے۔ میں نے گاندھی پر مسلم نواز اور غدار ہونے کا الزام لگاتے دیکھا ہے، میں نے بھگت سنگھ کی پھانسی پر گاندھی کی رضامندی بھی سنی ہے، اور ان الزامات کی حتی الامکان تردید کی ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ درحقیقت یہ وہ الزامات ہیں، جن کےذریعے ملک کی ایک بڑی جاہل اور کنفیوزڈ آبادی کو گاندھی کے مخالفین نے گاندھی کے خلاف استعمال کیا تھا۔
ہمانشو سنگھ لکھتے ہیں کہ گاندھی کا پسندیدہ بھجن’’ وشنو جن تو تینے کہیے جے پیر پرائی جانے رے۔یہاں میں گاندھی جی کو ہندو نواز ثابت کرنے کی کوشش نہیں کر رہا ہوں، میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ گاندھی صرف اور صرف انسان تھے، اور آخر یہ ان کے فلسفے کا نچوڑ ہے۔ گاندھی میری زندگی میں اس بوڑھے کی طرح آئے جسے میں بچپن میں بوڑھا کہہ کر چھیڑتا تھا، جس کی لاٹھی کو لیکر میں بھاگتا تھا، لیکن سمجھ آنے کے بعد، جس کی صحبت میں مجھے سب سے زیادہ خوشی ملی۔ ایک بزرگ، جس سے زندگی کی پالیسی کے بارے میں سب کچھ سیکھا، اور جس نے مجھے ایک ایسا جنتر دیا، جو مجھے زندگی بھر پرسکون، متوازن اور خوش رکھے گا، اور اپنی انا کو مجھ پر کبھی حاوی نہیں ہونے دے گا۔
ہمانشو سنگھ کے اس مضمون پر تبصرہ کرتے ہوئے گاندھیائی نظریہ کے حامی ایک شخص نے لکھا ہے: ’’باپو ہم شرمندہ ہیں، تیرے قاتل زندہ ہیں‘‘
***********************