جشن چراغاں کی زوردار تیاری

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 16th Oct۔

کووڈ۔19کے برےدنوں کے بعد، اس بار پورے ملک میں روشنی کے تہوار دیوالی کو دھوم دھام سے منانے کی تیاری زور و شور سے ہو رہی ہے۔ پچھلے دو سالوں میں کورونا وبا کی وجہ سےدیوالی کی روشنی تھوڑی مدھم پڑ گئی تھی۔اس بار اس دیوالی کا بے صبری سے انتظارہے۔ کمہار جو دئے بناکر فروخت کرتے ہیں اور وہ خریدار بھی جو ان چھوٹے چھوٹے دیوں کی روشنی سے خوشیاں حاصل کرتے ہیں۔ دیوالی کےلئےمٹی کے دئے بنانے کا کاروبار یوں تو پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے، لیکن ہریانہ کے گروگرام واقع ملینیم سٹی کے شیتلا کالونی علاقے کی بات ہی کچھ اور ہے۔مٹی کے دئے بنانے کے سیزنل کاروبارسے یہاں کے سیکڑوں خاندان جڑے ہوئے ہیں۔ اس کاروبارسے جڑے لوگوں کا کہنا ہے کہ پچھلے سال تک ان کے پاس صرف 10 سے 15 ہزار دیوں کا آرڈر آیا تھا، لیکن اس بار اب تک ایک لاکھ سے زیادہ دیے فراہم کرنے کا آرڈر مل چکا ہے۔ آہستہ آہستہ اس کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تک جانے کی امید ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق گھروں کو روشن کرنے کے لیے اس بار روایتی انداز میں مٹی کے لاکھوں دیے بنائے جا رہے ہیں۔ ان دیوں کو بنانے کے لیے جھجھر اور میوات سے چکنی مٹی منگوائی جا رہی ہے۔ سریش کا خاندان گڑگاؤں میں شیتلا مندر کے پاس واقع اپنے گھر میں ہے۔وہ بھی مٹی کے دئے بناتا ہے۔اس کے بنائے ہوئے دیوں کی مانگ نہ صرف گروگرام بلکہ ہریانہ اور دہلی کے آس پاس کے وسیع علاقوں سے ہوتی ہے۔ اس سال دیوالی کے موقع پر لوگ اپنی روایت کے معاملے میں زیادہ بیدار نظر آ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ الکٹرک جھالروںکےبجائے اس سال دیوں کی مانگ میں کچھ اضافہ ہوا ہے۔
اس بار کی دیوالی میں واضح طور پر یہ دیکھا جارہا ہے مارکیٹ میں چائنیز لائٹس سے زیادہ مٹی کے چھوٹے چھوٹے دیوں کاڈیمانڈ ہے۔’’لوکل فار ووکل‘‘ مہم کے تحت ، مٹی سے بنی مختلف قسم کی اشیاء اس بار بازار وں میں زیادہ نظر آئیں گی۔ سادہ اور فینسی دیے کا خوب ڈیمانڈ ہو رہا ہے۔گرو گرام کے صدر بازار میں رہنے والے ایک تاجر آنند راج کا کہنا ہے کہ انہوں نے مٹی کےدیوں کی ڈیمانڈ بھیجی ہے اوراب تک تقریباً 500 دئے ان کے پاس آچکے ہیں، جن کی فروخت آہستہ آہستہ شروع ہوگئی ہے۔ ویسے کووڈ-19 کے بعد ہر طرف مہنگائی کا اثر دیکھا گیا ہے۔ ایسے میں جہاں گزشتہ برسوں چارسوسے ایک ہزار روپئے میں ایک سو دئے تھوک در پر دستیاب تھے، اس بار ان کی قیمت میں 100 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ صرف یہی نہیں مٹی کی ٹرالی 35 سو میں آتی تھی جو اس بار 46 سو روپے میں آ رہی ہے۔ جس کی وجہ سے بازاروں میں ملنے والے چھوٹے بڑےدیوں کی قیمتیں بھی بڑھی ہوئی ہیں۔
ادھر یوپی کے شہر ایودھیا میں اس سال بھی دیوالی کے موقع پرجشن چراغاں کو دھودھام سے منانے کا منصوبہ ہے۔سال2014 میں ریاست میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت بننے کے بعد 2017 سے ایودھیا میں جشن چراغاں منانے کا آغاز ہوا تھا۔ پچھلے سال یوپی انتخابات سے پہلے جشن چراغاں منا یا گیا تھا۔ دریائے سریو کے کنارے ایک عظیم الشان لیزر شو بھی منعقد کیا گیا تھا۔ اس بار ایودھیا میں اس منصوبے کے لئے ڈھائی کروڑ روپے کا بندوبست کیا گیا ہے۔ اس کے لیے ریاست کے تمام 75 اضلاع کی گرام پنچایتوں سے دیے حاصل کرنے کا کام کیا جائے گا۔ اس تقریب میں 18 ہزار رضاکار مصروف عمل ہوں گے۔
یوپی حکومت اس بار ایودھیا کے جشن چراغاں کو ریاست کی تمام گرام پنچایتوں سے جوڑنا چاہتی ہے۔ پرنسپل سکریٹری سیاحت نے ریاست کے تمام ضلع مجسٹریٹس کو اس سلسلے میں ہدایات جاری کی ہیں۔ ڈی ایم کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ضلع کی تمام گرام پنچایتوں سے فی پنچایت 10 دئے ڈاکٹر رام منوہر لوہیا یونیورسٹی کے نوڈل افسر کو بھیجیں۔ اس طرح 23 اکتوبر کو ہونے والے جشن چراغاں میں ریاست کے ہر ایک گاؤںکی شرکت کو یقینی بنا نے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اس کام کے لئے مامور نوڈل آفیسر ڈاکٹر اجے پرتاپ سنگھ کے مطابق گزشتہ سال جہاں 32 گھاٹوں پر 11 لاکھ دئےجلے تھےوہیں اس سال سریو ندی کے 40 گھاٹوں پر 16 لاکھ دیے روشن کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ اس کے بعدتمام ضروری اشیاء کی فراہمی کا عمل شروع ہو جائے گا۔جشن چراغاں کی تیاریوں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ 2022 کی دیوالی کو 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے بھی جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔ویسے بھی بی جے پی حکومت پر یہ الزامات لگتے ہی رہے ہیں کہ وہ زیادہ تر ویسا ہی کام زیادہ دلچسپی کے ساتھ کرتی ہے، جس سے ایک خاص طبقےکے ووٹروں کو رجھایا جا سکے۔اس معاملے میں اتر پردیش ملک کی دیگران تمام ریاستوں سے آگے ہے، جہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔