ولیـــس الذکر کا الأنثی

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 16th Oct۔

آصف تنویر تیمی

سب سے پہلے یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اردو کے اس مضمون کو عربی نام دینے کا کیا مقصد ہے؟ اور وہ بھی عربی کا کوئی عام جملہ نہیں بلکہ قرآن کریم کی آیت کو موضوع کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ جس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ’’مرد، عورت کی طرح نہیں ہے‘‘ جب مرد، عورت کی طرح نہیں ہے تو صاف ظاہر ہے کہ عورت بھی مرد کی طرح نہیں ہے۔ اس کے باوجود بعض دانشوروں کا مرد اور عورت کے درمیان مساوات کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگانا بے سود ہے۔مرد اور عورت کے جسم کے بناوٹ سے لے کر لباس وپوشاک تک میں فرق پایا جاتا ہے۔
مثل مشہور ہے’’ سب کچھ بدلا جاسکتا ہے مگر کسی کی فطرت اور نیچر کو بدلا نہیں جاسکتا‘‘ عورت مسلمان ہو یا غیر مسلمان سب کی فطرت میں پردہ داخل ہے۔ پردہ کے لئے کسی کو کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی اگر انسان اچھے ماحول میں پلا بڑھا ہوتو خود بخود وہ اپنی فطرت کے مطابق ڈھلتا چلا جاتا ہے۔ اس کا صحیح اندازہ لگانا ہو تو بچہ اور بچی کی پیدائش کے بعد چندسالوں تک ان کے حرکات وسکنات کو دیکھا جاسکتا ہے۔ان کے کھیل کود اور پہننے اوڑھنے تک کے انداز میں فرق ہوتا ہے۔
ہندوستان میں آئے دن کوئی نہ کوئی موضوع میڈیا کی سرخی میں رہتا ہے۔ اور اس میں دورائے نہیں کہ اس وقت ہندوستان کا میڈیا سیاست سے متاثر ہے۔ جس کا خاصہ نقصان ہندوستانیوں کو اٹھانا پڑرہا ہے۔’’ غیر اہم موضوع‘‘ میڈیا کے ذریعہ بہت اہم اور سلگتا موضوع بنادیا جاتا ہے، اور’’ اہم موضوع‘‘ میڈیا کی عدم دلچسپی کی وجہ ’’غیر اہم‘‘ بن کر رہ جاتا ہے۔میڈیا نے سب سے زیادہ ہندومسلم اتحاد اور بھائی چارے کو نقصان پہنچایا ہے۔ جس کا اثر اس وقت پورے ہندوستان میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔میڈیا کے اس رویے پر اگر لگام نہیں لگایا گیا تو آنے والے دنوں میں ہم ہندوستانیوں کو بڑی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس وقت میڈیا میں دوخبر سرخی بٹور رہی ہے۔ پہلی خبر گیا ن واپی مسجد سے متعلق ہے اور دوسری خبر حجاب سے متعلق ۔ کہنے کے لئے تو دونوں خبر ہے مگر کبھی کبھار خبر کا مقصد میڈیا کے ذریعہ عام لوگوں کو مذہب کے جال میں پھنسانا ہوتا ہے۔ تاکہ ان کا ذہن ان کی زندگی سے جڑے اہم مسائل کی طرف نہ جاسکے۔ اس وقت ہندوستان کی بڑی آبادی غربت کی شکار ہے۔ اقتصاد اس ملک کا اہم ایشو ہے مگر سیاست داں ،حکمرانوں یا تیسری آنکھ کہاجانے والا میڈیا کو یے ایشوز ثانوی لگتے ہیں۔ ان کو تو مزہ مذہب کا کھیل کھیلنے میں آتا ہے۔ میرے ایک جاننے والے امریکہ گئے ۔ جب وہ امریکہ سے آئے تو میں نے ان سے پوچھا۔ وہاں کی تہذیب وکلچر اور وہاں کے مسائل کے بارے میں کچھ بتلائیں ، انہوں نے میرے سوال کا جواب صرف دوجملوں میں دیا۔ جناب! وہاں سب کچھ میڈیا ہے۔ میڈیا نے دن کہا تو دن رات کہہ دیا تو رات۔ وہاں عام آدمی کی اپنی کوئی رائے نہیں ہوتی۔ ان کا جواب سننے کے بعد میں نے دل میں سوچا اپنے ہندوستان کی بھی تو حالت اس سے بہت مختلف نہیں ہے۔ آسانی کے ساتھ میڈیا عام انسانوں کے رحجان کو تبدیل کردیتا ہے۔ اس کثرت سے جھوٹ بولا جاتا ہے کہ سچ معلوم ہونے لگتا ہے۔ اور سچا آدمی اپنا سا منہ لیکر رہ جاتا ہے۔
اس قت حجاب کے موضوع پر ایسے ایسے لوگ اپنی رائے دیتے نظر آتے ہیں جنہیں اسلام کے’’ الف‘‘، مسلمان کے’’ میم‘‘، اور حجاب کے ’’حاء‘‘ سے واقفیت نہیں۔ ستر پوشی کی تعلیم تمام مذاہب میں موجود ہے۔ بہتر لباس زیب تن کرنا ہر زمانے میں مہذب لوگوں کی پہچان رہا ہے۔ اسلام میں بھی لباس وپوشاک کی تعلیمات موجود ہیں۔ لباس کا مقصد کبھی ستر پوشی اور کبھی زینت ہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا:’’ اے اولاد آدم! تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو۔ اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے مت نکلو۔ بے شک اللہ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ آپ فرمائیے کہ اللہ تعالی کے پیدا کئے ہوئے اسباب زینت کو، جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے؟‘‘۔( الاعراف: ۳۱-۳۲)دوسری جگہ اللہ تعالی نے فرمایا:’’اے آدم(علیہ السلام) کی اولاد ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور تقوے کا لباس، یہ اس سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں‘‘۔( الاعراف: ۲۶)
مسلمانوں کے علاوہ عام لوگوں کو بھی یہ سمجھنا چاہئے کہ جس اللہ نے انسانوں کو پیدا کیاہے وہ اس کی فطرت اور ضرورت سے زیادہ آگاہ ہے۔ ہم انسان وہاں تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے جہاں تک رسائی ہمارے خالق کی ہے۔اور مذہب اسلام عین فطرت کے مطابق ہے۔ جس طرح فرق دومرد اور دو عورت کے مابین پایا جاتا ہے اسی طرح مرد اور عورت کے درمیان بھی فرق موجود ہے۔ اس فرق کو ایک ادنی انسان سمجھتا اور اس کے مطابق تعامل کرتا ہے چہ جائیکہ پڑھے لکھے سمجھ نہ سکیں۔بہت سارے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ اسلام نے عورتوں پر ایسی پابندی لگارکھی ہے کہ وہ اپنی طبیعت سے کچھ نہیں کرسکتی۔ حالانکہ اسلام نے عورتوں کو فرش سے اٹھاکر عرش پر بیٹھایا ہے۔تمام جائز حقوق سے نوازا ہے۔ اسلام سے قبل ہر سماج میں عورتوں کی جو درگت تھی اس سے تاریخ داں واقف ہیں۔ ان چیزوں کا اگر تذکرہ کیا جائے تو بات لمبی ہوجائے گی۔
عورت کی حقیقی خوبصورتی پردہ میں ہے۔یہی وجہ ہے کہ شادی اور دیگر مناسبات پر عورتیں پردہ کا خاص اہتمام کرتی ہیں۔ ایک سے زائد کپڑے زیب تن کرتی ہیں۔ گھنگھٹ ڈالتی ہیں۔ آج تک کسی عورت کو دیکھا نہیں گیا کہ وہ اسکول اور کالج کے ڈریس میں سسرال چلی گئی ہو۔ اگر حجاب کی ضرورت نہیں ہے تو پھر عورتوں کو کیوں نہیں عام لباس میں سسرال بھیج دیا جاتا ہے۔یورپ اور امریکہ میں بھی عورتیں زندگی گزارتی ہیں، من چاہا لباس پہنتی ہیں۔ان کے ماں باپ بھی کسی قسم کا اعتراض نہیںکرتے۔ مگر ہمارے یہاں کی ماں باپ چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلمان اس کو پسند نہیں کرتا۔یورپ اور امریکہ میں اسی بے پردگی کی وجہ سے زنا جیسے جرم کی کثرت ہے۔ نسب ایسا مخلوط ہوتاہے کہ حقیقی ماں باپ کا پتہ نہیں چلتا۔ہمارے ہندوستانی لوگ کیا یہ چاہیں گے کہ ان کی اولاد بھی انسانیت کو ترک کرکے حیوانیت کو اختیار کرلے۔ چنانچہ ہمارے معزز ججوں کو بھی حجاب سے متعلق فیصلہ کرنے سے قبل تمام پہلوؤں اور ہندوستان کی تہذیب پر غور کرنا چاہئے۔ اس لئے کہ اسکول اور کالج ہی سے ہمارے بچے اور بچیاں سیکھتے ہیں، اور ہمارا بہتر سماج تشکیل پاتا ہے۔
ہماری حکومت کو اسکول اورکالج کے نظم ونسق کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تعلیم کے معیار کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ اور ایسا ماحول بنانے کی ضرورت ہے کہ ہرمذہب کے بچے اور بچیوں میں محبت رہے۔ اسکول اور کالج کی چہار دیواری میں مذہبی منافرت نہیں ہونی چاہئے۔کرناٹک کے اسکولوں میں اس سال فروری کے مہینہ میں جوکچھ ہوا وہ اچھا نہیں ہوا۔اگر مسلمان لڑکیاں پردہ میں رہ کر تعلیم حاصل کرتی ہیں تو اس میں مضائقہ کیا ہے۔ ملک کا آئین ہرشخص کو اس بات کی آزادی دیتا ہے کہ وہ اپنے مذہب کے مطابق لباس وپوشاک اختیار کرسکے۔اس وقت جو توانائی ہماری تعلیم کے استحکام میں صرف ہونی چاہئے وہ ساری توانائی ہندو اور مسلمان کرنے میں لگ رہی ہے، جوکہ افسوس ناک ہے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ لوگ مذہبی منافرت کو ترک کرکے اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت پر توجہ دیں ۔اور یاد رکھیں کہ پردہ عورت کی فطری ضرورت ہے اور اسلام نے قرآن وحدیث میں اس کی بڑی تاکید کی ہے۔