اولاد کی تربیت‘ ایک اہم ذمہ داری

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 10th Nov.

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی

سنبھل قدیم شہر ہے، اس کو تاریخی دستاویزوں میں ’’سرکارِ سنبھل‘‘ لکھا گیا ہے۔ پرتھوی راج چوہان کے زمانہ میں سنبھل کو راجدھانی کا مقام حاصل تھا۔ مغلوں کے دور میں بھی سنبھل کی امتیازی حیثیت باقی رہی۔ بڑی تعداد میں علماء کرام اس سرزمین میں پیدا ہوئے جنہوں نے قرآن وحدیث کی ترویج میں نمایاں خدمات پیش کیں۔ لیکن اب جیسے جیسے عوام الناس کا علماء کرام سے ربط کم ہوتا جارہا ہے، نیک لوگوں کی صحبت کے بجائے ٹی وی اور انٹرنیٹ پر وقت لگ رہا ہے۔ بچے اور بچیاں قرآن وحدیث کی ضروری تعلیم چھوڑکر صرف اسکولوں وکالجوں وکوچنگ سینٹروں کا رخ کررہی ہیں۔ بچوں اور بچیوں کا بڑی تعداد میں اسکول وکالج جاکر تعلیم حاصل کرنا بڑی خوش آئند بات ہے لیکن والدین اور سرپرستوں کا اپنی اولاد سے بے خبر رہنا بڑی تشویش ناک پہلو ہے ۔ ہمیں اولاد کوبہتر سے بہتر تعلیم ضرور دینا چاہئے لیکن اُن کو اُن کے حال پر نہ چھوڑا جائے، ان کی نگرانی کرنا ہماری دینی واخلاقی وسماجی ذمہ داری ہے۔ ماضی میں مدارس اسلامیہ کے لئے مشہور اِس شہر میں اب اسکولوں وکالجوں کا قیام بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے مگر تربیت کا ابھی فقدان ہے۔ بہرحال دیگر شہروں وعلاقوں کی طرح علماء کرام کے اس شہر میں بھی دین سے دوری بڑھتی جارہی ہے۔ مسجدوں کی کثرت کے باوجود ہماری نمازیں‘ نماز کی روح یعنی خشوع وخضوع سے خالی ہیں۔ پیسہ کی دوڑ میں ہر شخص سبقت حاصل کرنا چاہتا ہے خواہ وسائل جائز ہوںیا ناجائز۔ جس کے لئے یقینا فکر اور کوشش کی ضرورت ہے۔ حال ہی میں ۲ نومبر ۲۰۲۲ کو سنبھل میں چندوسی شاہ راہ پر واقع ایک ہوٹل میں بڑا تکلیف دہ واقعہ پیش آیا۔ رپورٹ کے مطابق متعدد شکایتیں ملنے کے بعد ہی پولیس نے کاروائی کی جس میں ۷ لڑکوں اور ۷ لڑکیوں کو غلط حرکتیں کرتے پکڑا۔ ظاہر ہے کہ اس نوعیت کا یہ پہلا اور آخری واقعہ نہیں ہے۔ مخلوط تعلیم، موبائل اور انٹرنیٹ کا بے جا استعمال، بچیوں کی ضرورت سے زیادہ آزادی، ماں کی بچوں پر کمزور پکڑ اور باپ کی زیادہ مصروفیات کی وجہ سے جگہ جگہ بے حیائی اور عصمت دری کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔
اگر ہم پورے معاشرہ کو درست نہیں کرسکتے ہیں تو کم از کم ہمیں اپنے بچوں اور بچیوں کی نگرانی کرنی ہوگی، ورنہ زناکاری کے واقعات میں اضافہ ہوگا۔ تفصیلی رپورٹ سے معلوم ہوا کہ ان لڑکوں ولڑکیوں میں سے اکثر کا تعلق شہر سنبھل کے بجائے اطرافِ سنبھل سے ہے۔ ویڈیو میں برقعہ پوش لڑکیوں سے لگا کہ سبھی لڑکیاں ایک مذہب کی ہیں لیکن پولیس رپورٹ سے تحقیق ہوئی کہ ان میں سے تین لڑکیوں کا تعلق دوسرے مذہب سے ہے۔ سوشل میڈیا پر جو بات گردش کررہی تھی کہ ایک عالم ِ دین کی بیٹی بھی اس میں شامل ہے، وہ سراسر بہتان اور غلط ہے۔
ہوٹل چلانے والے کا تعلق بھی سنبھل سے نہیں ہے جو رپورٹ کے مطابق فی الحال فرار ہے۔ عموماً ہم اولاد اس لئے چاہتے ہیں کہ اولاد سے ہمیں خوشی اور زندگی میں طاقت ملتی ہے جبکہ بے اولاد شخص زندگی میں تنہائی محسوس کرتا ہے۔اولاد بڑھاپے کی لاٹھی سمجھی جاتی ہے جبکہ بے اولاد بڑھاپے کی اس امید سے محروم ہوتا ہے۔ اولاد ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے اور بے اولاد کی زندگی اس رنگ ونور سے خالی ہوتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اولاد ہمارے مرنے کے بعد ہمارے وجود کی نشانی بھی ہوتی ہے۔ غرضیکہ اولاد اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہونے کے ساتھ ساتھ دنیاوی زندگی کی زیب وزینت بھی ہے، جیساکہ ارشاد ربانی ہے: مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی زینت ہیں۔(سورۃ الکہف ۴۶) ابنیاء کرام نے اللہ تعالیٰ سے اولاد عطا کرنے کی دعا بھی کی، چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی :میرے پروردگار! مجھے ایک ایسا بیٹا دیدے جو نیک لوگوں میں سے ہو۔ چنانچہ ہم نے انہیں ایک بردبار لڑکے کی خوشخبری دی۔ (سورۃ الصافات ۱۰۰ و ۱۰۱) حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا کی: اور مجھے اپنے بعد اپنے چچا زاد بھائیوں کا اندیشہ لگا ہوا ہے اور میری بیوی بانجھ ہے۔ لہٰذا آپ اپنے پاس سے ایک ایسا وارث عطا کردیجئے جو میرا بھی وارث ہو اور یعقوب کی اولاد سے بھی میراث پائے۔ اے پروردگار! اسے ایسا بنائیے جو (خود آپ کا) پسندیدہ ہو۔۔۔ (آواز آئی کہ 🙂 اے زکریا! ہم تمہیں ایک ایسے لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہوگا۔۔۔ (سورۃ مریم ۵ و۶ و ۷) اولاد سے متعلق نیک بندوں کی دعا بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں ذکر فرمائی ہے: ہمارے پروردگار! ہمیں اپنی بیوی بچوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ (سورۃ الفرقان ۷۴)
مذکورہ بالا آیاتِ قرآنیہ سے معلوم ہوا کہ اولاد اللہ کی عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہے، لہٰذا ہمیں اس نعمت کی قدر کرنی چاہئے، اور وہ یہ ہے کہ ہم ان کی تعلیم وتربیت میں کوئی کوتاہی نہ کریں۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ (سورۃ التحریم۶) مفسرین کرام نے اس آیت کی تفسیر میں تحریر کیا ہے کہ ہر شخص پر فرض ہے کہ اپنی بیوی اور اولاد کو فرائض شرعیہ اور حلال وحرام کے احکام کی تعلیم دے اور اس پر عمل کرانے کی کوشش کرے۔ رسول اللہﷺ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور اس کی ذمہ داری کے متعلق پوچھا جائے گا۔ امیر اپنی رعایا کا، مرد اپنے اہل وعیال کا، عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کی ذمہ دار ہے۔ (بخاری ومسلم) بچوں کی دینی تعلیم وتربیت کے لئے چند امور کا خاص خیال رکھیں:
بچوں کو توحید کی تعلیم دیں:اولاد کی تربیت کے لئے والدین کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو سب سے پہلے توحیدکی تعلیم دیں۔ بچوں کی شروع سے ہی ایسی اسلامی تربیت کریں کہ وہ زندگی کی آخری سانس تک موحد رہیں۔ان کا عقیدۂ توحید زندگی کے کسی موڑ پر نہ لڑکھڑائے۔ اللہ کی وحدانیت کی تعلیم کے ساتھ ان کو حضور اکرمﷺ کے آخری نبی ورسول ہونے کی تعلیم دیں اور ان کو بتائیں کہ کل قیامت تک صرف اور صرف نبی اکرم ﷺ کے نقش قدم پر چل کر ہی دونوں جہاں کی کامیابی وکامرانی حاصل کی جاسکتی ہے۔
بچوں کو قرآن کریم پڑھائیں:قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے جو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے انس وجن کی رہنمائی کے لئے آخری نبی حضور اکرم ﷺ پر وحی کے ذریعہ نازل فرمایا، اپنے بچوں کو سب سے قبل ناظرہ پڑھائیں، چھوٹی چھوٹی سورتیں یاد کرائیں، اگر حافظ قرآن بنائیں تو نور علی نور۔ رسول اللہ ﷺ نے امت کو بکثرت قرآن کی تلاوت کا حکم دیا کیونکہ قرآن کل قیامت کے دن پڑھنے والوں کی سفارش کرے گا اور قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی۔ (مسلم)
بچوں کی نماز کی نگرانی کریں:ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی ذات سے نمازوں کا اہتمام کرکے اپنی اولاد کی بھی نمازوں کی نگرانی کرے۔ جس طرح اولاد کی دنیاوی تعلیم اور ان کی دیگر ضرورتوں کو پورا کرنے کی دن رات فکر کی جاتی ہے اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ ان کی آخرت کی فکر کرنی چاہئے کہ وہ کس طرح جہنم کی آگ سے بچ کر ہمیشہ ہمیشہ کی جنت میں داخل ہونے والے بن جائیں۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بچے جب سات سال کے ہو جائیں تو نماز کا حکم دیں اور جب دس سال کے ہوجائیں تو نماز میں کوتاہی کرنے پر ان کی پٹائی کریں۔ دس سال کی عمر میں ان کے بستر الگ کردیں۔ (ابوداود)
اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے: (اے محمد!) اپنے گھر کے لوگوں پر نماز کی تاکید رکھ اور خود بھی اس پر جما رہ۔ (سورہ طہ۱۳۲) اس خطاب میں ساری امت نبی اکرمﷺ کے تابع ہے، یعنی ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود بھی نماز کی پابندی کرے اور اپنے گھر والوں کو بھی نماز کی تاکید کرتا رہے۔اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا قرآن کریم میں ذکر فرمائی: اے میرے پالنے والے! مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولاد میں سے بھی (یعنی مجھے اور میری اولاد کو نماز کا پابند بنادے) (سورہ ابراہیم۴۰) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ساتھ اپنی اولاد کے لئے بھی نماز کی پابندی کرنے کی دعا مانگی، جس سے معلوم ہوا کہ ہر شخص کو اپنے ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی نمازکی فکر کرنی چاہئے۔
بچوں کو قرآن وحدیث کی بنیادی تعلیم سے روشناس کریں: اب عمومی طور پر ہمارے بچے اسکول وکالج پڑھنے جاتے ہیں۔ یقینا ہم اپنے بچوں کو ڈاکٹر، انجینئر اور لیکچرار بنائیں لیکن سب سے قبل ان کو مسلمان بنائیں۔ لہٰذا اسلام کے بنیادی ارکان کی ضروری معلومات کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کی سیرت اور اسلامی تاریخ سے ان کو ضرور بالضرور روشناس کرائیں۔ اگر ہمارا بچہ ڈاکٹر یا انجینئر بنا لیکن شریعت اسلامیہ کے بنیادی احکام سے ناواقف ہے تو کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے ہمیں جواب دینا ہوگا۔
بچیوں کو شرم وحیا والے لباس پہنائیں:ان دنوں ہماری مسلم لڑکیوں حتی کہ دینی گھرانوں کی بچیوں کا لباس غیر اسلامی ہوتا جارہا ہے۔ مختلف تقریبات میں ایسا لباس پہن کر ہماری مسلم بچیاں شریک ہوتی ہیں کہ دنیا کا کوئی بھی عالم اس کے جواز کا فتوی نہیں دے سکتا ہے، اس لئے ہمیں اپنی بچیوں کو ابتداء سے ہی تنگ لباس پہننے سے روکنا چاہئے تاکہ بالغ ہونے تک وہ ایسا لباس پہننے کی عادی بن جائیں جس میں شرم وحیا ہو، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاعراف آیت ۲۶ میں تقوی کا لباس پہننے کی تعلیم دی ہے۔ تقوی کا لباس وہی ہوگا جو نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کے خلاف نہ ہو، مثلاً ایسا تنگ اور باریک لباس نہ ہو جس سے جسم کے اعضاء نظر آئیں، نیز عورتوں کا لباس مردوں کے مشابہ نہ ہو۔
بچوں کو ٹی وی اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے روکیں:معاشرہ کی بے شمار برائیاں ٹی وی اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے پھیل رہی ہیں، لہذا فحش وعریانیت اور بے حیائی کے پروگرام دیکھنے سے اپنے آپ کو بھی دور رکھیں، اور اپنی اولاد وگھر والوں کی خاص نگرانی رکھیںتاکہ یہ نئے وسائل ہمارے ماتحت لوگوں کی آخرت میں ناکامی کا سبب نہ بنیں کیونکہ ہم سے ہمارے ماتحت لوگوں کے متعلق بھی سوال کیا جائے گا جیسا کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ذکر کیا گیا۔
بچوں کو ادب سکھائیں:بچوں کو بڑوں کا ادب کرنے، چھوٹوں پر شفقت کرنے، سب سے اچھے لہجے میں گفتگو کرنے، پڑوسی ، یتیم، رشتہ داروں اور بیواؤں کا خیال رکھنے اور عام لوگوں کی خدمت کرنے کی ترغیب دیتے رہیں۔ کھانے پینے اور سونے وغیرہ میں نبی اکرم ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنے ترغیب دیتے رہیں۔گالی گلوچ، جھوٹ، غیبت، چوری، رشوت اور سگریٹ نوشی سے دور رہنے کی ان کو تعلیم دیتے رہیں۔خود بھی پوری زندگی صرف حلال روزی پر اکتفاء کریں اور بچوں کو بھی صرف حلال روزی کھانے کی ترغیب دیتے رہیں۔
آخر میں میری والدین سے درخواست ہے کہ ہم اپنے بچوں کی دنیاوی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی اپنی حد تک ضرور کوشش کریں لیکن یہ ذہن میں رکھیں کہ اگر ہم نے اپنی قیمتی زندگی‘ اپنی اور اولاد کی دنیاوی زندگی کے مسائل کو حل کرنے میں لگادی اور ہم اپنی اخروی زندگی کی تیاری نہ کرسکے تو ہمارے لئے ناکامی ہی ناکامی ہے۔ لہٰذا ہم یہ دنیاوی فانی زندگی اخروی زندگی کو سامنے رکھ کر گزاریں۔ اگر ہم نے اولاد کی صحیح تعلیم وتربیت کی ہی ہے تو ہمارے مرنے کے بعد اولاد کے ذریعہ کئے جانے والے نیک اعمال کا ثواب ہمیں بھی ضرور ملے گا ان شاء اللہ۔ (www.najeebqasmi.com)