Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 6th Nov.
پروفیسر مشتاق احمد
بہار میں نتیش کمار کی قیادت والی عظیم اتحاد کی حکومت روزِ اول سے ہی یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ اقلیت طبقے کے لئے مخصوص فلاحی کاموں کے تئیں کس قدر سنجیدہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نتیش کمار کے دورِ اقتدار میں کئی ایسی فلاحی اسکیموں کا نفاذ ہوا ہے جس سے دیگر طبقے کے ساتھ ساتھ اقلیت طبقے کے لوگوں کو بھی فائدہ پہنچا ہے لیکن کچھ ایسی اسکیمیں ہیں جو خصوصی طورپر اقلیت طبقے کے لئے بنائی گئیں اور اس سے اقلیت طبقے کو خاطر خواہ فائدہ پہنچا ہے ۔ مثلاً بہار میں محکمہ اقلیتی فلاح وبہبود کے ذریعہ اقلیت طبقے کے طلباء وطالبات کے لئے قومی اور ریاستی مقابلہ جاتی امتحانات کی تیار ی کی غرض سے مفت کوچنگ کا اہتمام کیا گیااور اس مفت کوچنگ سے تیاری کی وجہ سے بڑی تعداد میں اقلیت طبقے کے طلباء مختلف مقابلہ جاتی امتحانات میں کامیاب ہوئے ہیں۔ بالخصوص بہار پبلک سروس کمیشن ، بہار پولیس سب انسپکٹر ، بینکنگ ، ریلوے اور اساتذہ اہلیتی مقابلہ جاتی امتحانات میں اقلیت طبقے کے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار کے مواقع حاصل ہوئے ہیں۔ دراصل مفت کوچنگ کا خاکہ موجودہ چیف سکریٹری بہار جناب عامر سبحانی کے ذریعہ تیار کیا گیا تھا جس وقت وہ محکمہ اقلیتی فلاح کے پرنسپل سکریٹری تھے اور اس وقت سے یہ اسکیم ہنوز جاری وساری ہے۔ ریاست کی راجدھانی پٹنہ حج بھون میںیوپی ایس سی، بی پی ایس سی اور دیگر مقابلہ جاتی امتحانات کے لئے مفت کوچنگ کے ساتھ ساتھ طعام وقیام کابھی نظم ہے ۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ حج بھون کوچنگ کی وجہ سے اقلیت طبقے کی لڑکیوں کو بڑا فائدہ پہنچ رہا ہے اوراقلیتی معاشرے میں ایک طرح کی نئی بیداری پیدا ہوئی ہے کہ بیشتر مقابلہ جاتی امتحانات میں حج بھون مرکز سے کوچنگ کرنے والے کامیاب امیدواروں میں لڑکیوں کی تعداد میں دنوں دن اضافہ ہو رہاہے جو ایک خوش آئند اشاریہ ہے ۔پٹنہ کے علاوہ دربھنگہ،آرہ، موتیہاری اور کٹیہار میں بھی مفت کوچنگ کے مراکز قائم کئے گئے ہیں جہاں طلباء کو مفت کوچنگ کے ساتھ دیگر تعلیمی اشیاء بھی دی جاتی ہیں۔ غرض کہ حکومت کی اس اسکیم سے اقلیتی طبقے کے ایسے طلباء جو مالی دشواریوں کی وجہ سے کوچنگ کرنے سے محروم رہ جاتے تھے انہیں اس کا خاطر خواہ فائدہ مل رہاہے۔
وزیر اعلیٰ نتیش کمار اکثر اس حقیقت کا اعتراف کرتے رہے ہیں کہ دیگر طبقے کے ساتھ ساتھ اقلیت طبقوں کو بھی حکومت کی مختلف اسکیموں کا فائدہ ملنا چاہئے ۔ بہر کیف! گذشتہ کل وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے 183نو منتخب اردو مترجمین کے درمیان تقرری نامے تقسیم کے وقت اپنی تقریر میں جو کچھ کہا وہ اقلیت طبقے کے لئے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔انہوں نے کہا کہ اردو داں افراد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اردو کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے اپنے طورپر بھی کوشش کریں اور غیر اردو داں افراد کو اردو سکھانے کی عملی پہل کریں۔ کیوں کہ اردو ہندوستان کی تہذیبی زبان ہے اس کی جائے پیدائش ہندوستان ہے مگرمتعصب ذہنیت کے لوگوں نے اردو کے تئیں غلط فہمیاں پھیلائی ہیں جس سے اس زبان کا نقصان ہوا ہے۔ اس لئے اردو داں طبقے کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف اس غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کریں بلکہ اردو کو دوسرے طبقوں تک پہنچانے کے لئے تحریک بھی چلائیں ۔ زبان جبراً نہیں سکھائی جاتی بلکہ لسانی محبت کے ذریعہ دیگر زبان کے لوگوں کو راغب کیا جاتا ہے اور اگر اردو آبادی اس نسخے کو عملی جامہ پہنائیں گے تو مستقبل میں اردو کے لئے خوشگوار فضا قائم ہوگی۔ نتیش کمار کی یہ نصیحت سیاسی سے زیادہ اردو کے تئیں محبت کا خلاصہ ہے۔ انہو ںنے یہ اعتراف بھی کیا کہ اردو کے الفاظ کی وجہ سے ہماری تقریر وتحریر کا معیار ووقار بلند ہوتا ہے اس لئے ایسے غیر اردو داں طبقے جو اپنی تقریر وتحریر کو مؤ ثر بنانا چاہتے ہیں ان کے لئے اردو زبان کا سیکھنا مفید بخش ہوتا ہے ۔ انہو ںنے اپنی ذاتی خواہشات کا بھی اظہار کیا کہ وہ طالب علمی کے زمانہ میں اردو سیکھنا چاہتے تھے مگر انہیں وہ موقع نہیں ملا ،بعد کے دنوں میں دیوناگری کے ذریعہ اردو الفاظ سے آشنائی ہوئی اور اس کے استعمال کی طرف بھی توجہ ہوئی ۔واضح ہو کہ نتیش کمار نے 183اردو مترجمین کی بحالی کو ایک انقلابی قدم قرار دیا لیکن یہ شرط بھی رکھی کہ ان مترجمین کی بحالی جس مقصد سے کی گئی ہے تمام مترجمین اگر اپنے فرائض کو بخوبی انجام دیں گے تو اردو کے فروغ کا راستہ مزید ہموار ہوگا اور مستقبل میں مترجمین کے لئے نئے عہدے بھی منظور کئے جائیں گے۔اس موقع پر نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی پرساد یادو نے بھی اقلیت طبقے کی خواتین کے لئے ہنر پروگرام ، اقلیتی بیروزگاروں کے لئے قرض منصوبے اور تمام اضلاع میں اقلیتی رہائشی اسکول کی تعمیر کی اہمیت وافادیت کا ذکر کیا اور یہ یقین دہانی کرائی کہ اقلیت طبقے کے لئے جتنی بھی مخصوص اسکیمیں ہیں اس کے نفاذ کے لئے حکومت سنجیدگی کے ساتھ کام کر رہی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت نے تو اپنا کام کردیا ہے اب ہم اردو والوں کی ذمہ داریاں ہیں کہ ہم بلاک اور اضلاع کے دفاتر میں اردو میں درخواستیں دیں تاکہ نومنتخب مترجمین اپنے فرائض کو پورا کر سکیں اور اردو زبان کے فروغ کا راستہ ہموار ہو سکے۔ کیوں کہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ماضی میں بھی بلاکوں اور اضلاع میں اردو مترجمین خواہ کم ہی تعداد میںبحال ہوئے تھے ، مگروہ اردو کے کام سے زیادہ دیگر دفتری امور میں لگے رہے جس سے اردو کا بہت نقصان ہوا ہے۔ اس مسئلہ پر میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں اوراردو آبادی سے اپیل بھی کرتا رہا ہوں کہ وہ اردو زبان میں سرکاری دفاتر میں درخواست دینے کی روش کو عام کریںکیوں کہ اردو مترجمین کا مبینہ طورپر یہ الزام رہا کہ جب اردوآبادی سرکاری دفاتر میں اپنے کسی کام کے لئے اردو میں درخواستیں نہیں دیتی ہیںتو ایسی صورت میں وہ کیا کریں۔ظاہر ہے کہ ان کا عذر بھی بجا ہے۔ اب وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ حکومت نے جن نئے اردو مترجمین کو تقرری نامے دئیے ہیں وہ اپنی ملازمت کے پہلے دن سے ہی اس کوشش میں لگ جائیں کہ وہ اردو آبادی کو اردو میں درخواست دینے کی طرف مائل کرسکیں۔ بالخصوص اردو کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کو بھی چاہئے کہ وہ ان نئے اردو مترجمین سے رابطہ قائم کر کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کریں ۔ واضح ہو کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ حکومت دو ہزار سے زیادہ اردو مترجمین کی بحالیوں کا ارادہ رکھتی ہے۔ظاہر ہے کہ اگر ان نو منتخب مترجمین کے ذریعہ اردو کے کام نہیں کئے جائیں گے تو آگے کی راہیں مسدود ہوکر رہ جائیں گی اور جس سے اردو کا بڑا نقصان ہوگا۔
مختصر یہ کہ حکومت نے اردو مترجمین کی بحالی کرکے ہم اردو والوں کی ذمہ داریوں میں ایک بڑا اضافہ کیا ہے اور اگر ہم اپنی ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ریاست میں دوسری زبان کا درجہ رکھنے والی اردو زبان کی ترویج واشاعت کے کئی نئے در وا ہوسکیںگے ورنہ اگرہمارا رویہ حسب سابق ہی رہا کہ ہم اردو میں درخواست دینے کوکسرِ شان سمجھتے رہے تو پھر نتیجہ ڈھاک کے تین پات ہو کر رہ جائے گا۔
موبائل:9431414586
٭٭