Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 11th Nov.
سپریم کورٹ نے آئین کی 103ویں ترمیم کو برقرار رکھتے ہوئے معاشی طور پر کمزور طبقات (ای ڈبلیو ایس)کے لیے 10 فیصد ریزرویشن کو برقرار رکھا ہے۔ 2-3کی اکثریت سے لیے گئے اس فیصلے نے معاشی طور پر کمزور طبقات کے لیے تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن کا راستہ صاف کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو گئی ہےکہ اب ملک میں ریزرویشن کی دو بنیادیں ہیں۔ ایک نسلی یا ذات پر مبنی پسماندگی اور دوسری غربت اور معاشی اعتبار سے پس ماندگی ۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلےکو ملک میں ریزرویشن کے سفر کا ایک اہم پڑاؤ کہا جا سکتا ہے۔ سماجی پالیسی میں،قانون سازیہ، یونیورسٹیوں اور ملازمتوں میں نشستوں کے ریزرویشن کو پسماندہ طبقات اورجماعتوں کو بااختیار بنانے کے لیے حکومتوں کو دستیاب ایک آلہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے ریزرویشن کو یہ ایک ٹارگیٹڈ سبسڈی یا فلاحی اسکیم بھی کہا جا سکتا ہے ۔حالانکہ بھارت میں ریزرویشن صرف ایک آلہ ہی نہیں ہے، اس کی ایک خاص تاریخی اہمیت بھی ہے۔
اگست 1932 میں برطانوی حکومت نےطبقاتی ایوارڈ کا آغاز کیا۔ اس میں دلتوں کے ساتھ ساتھ کئی برادریوں کو بھی الگ ووٹر کا حق دیا گیا تھا۔ اس کے تحت دلتوں کو 2 ووٹ کا حق ملا تھا۔ انگریزوں کے اس فیصلے کے خلاف مہاتما گاندھی بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئے۔لیکن بھیم راؤ امبیڈکر کا خیال تھا کہ دلتوں کو دو ووٹ کا حق ان کی ترقی میں ایک اہم قدم ثابت ہوگا۔مگر مہاتماگاندھی کے انشن کو ختم کرانے کے لیے امبیڈکر کوجھکنا پڑا۔ انہوں نے 14 ستمبر 1932 کو پونا معاہدے پر دستخط کیے۔ اس کے تحت دلتوں کے دو ووٹوں کا حق ختم ہو گیا۔ تاہم بعد میں دلتوں کے لیے مخصوص نشستوں کی تعداد بڑھا دی گئی۔
بعد میں، یونیورسٹیوں اور سرکاری ملازمتوں میںریزرویشن کو بڑھایا گیا تاکہ ذات کی بنیاد پر قائم طبقات کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کی تلافی کی کوشش کی جا سکے۔یہیں سے بھارت میں ریزرویشن کا آغاز ہوا۔معاشی طور پر کمزور طبقات (ای ڈبلیو ایس)کے لیے 10 فیصد ریزرویشن کو اس بنیاد پر کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا کہ سیٹوں کو ریزرو کرنے کے لیے صرف معاشی کمزوری کو پیمانہ بنانا ریزرویشن کے مزاج کے مناسب نہیں ہے۔ کیوں کہ اس سے آئین کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ مانا جا رہا ہے کہ جس طرح پونا معاہدہ میں ریزرویشن ، دوسری گول میز کانفرنس میںنظرا ندازشدہ طبقات کے دعووں کی امبیڈکر کی کامیاب وکالت کا جواب تھا، اسی طرح 103ویں آئینی ترمیم آج کی ہماری غریبی ہٹاؤ سیاست کی عکاس ہے۔
بلا شبہہ آئین کی 103ویں ترمیم اور اس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ ایک اہم سیاسی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔۔ ملک میں ریزرویشن اب صرف ذات کے تعلق سے نہیں رہ گیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے، جیسا کہ اکثریت کی رائے ہےکہ ذات پات کی بنیاد پر سماج میں رائج تعصبات کی طاقت کمزور پڑجائےگی۔اس کا سیدھا مطلب ہے کہ اب ریزرویشن کا فائدہ بھی غریبوں کو ملے گا۔مہرین کا کہنا ہے کہ معاشی طور پر کمزور طبقات (ای ڈبلیو ایس) کےریزرویشن کو صرف فارورڈ کلاس کے لئے ریزرویشن سمجھنا مناسب نہیںہے۔ آئینی ترمیم کےمتن سے ہی یہ واضح ہے کہ یہ سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ طبقات کے علاوہ ان کے لئے بھی دستیاب ہے، جنہیں پہلے سےریزرویشن کی سہولیات حاصل ہیں۔ اس میں اعلیٰ ذات کے غریبوں کے علاوہ مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے غریب بھی شامل ہیں۔
ریزرویشن کے حوالے سے ضرورت سے زیادہ سماجی تقسیم، آپسی اتحاد اور بھائی چارے کے آئینی نظریے کے لیے اچھی نہیں ہے۔ سماجیات کےماہرین کا ماننا ہے کہ ذات پر مبنی ریزرویشن کا نظریہ اب تک سماج کے پسماندہ طبقات کی زندگی کو با وقار بنائے جانے سے متعلق امبیڈکر کے نظریات سے دوقدم آگے بڑھ چکا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اب ان لوگوں کو بھی ریزرویشن کی سہولت حاصل ہوگی جو نسلی پسماندہ طبقات کے زمرے میں نہیں آتے ہیں۔ اس طرح ریزرویشن کے نام پر فاروارڈ کلاسز اور بیک وارڈ کلاسز کے درمیان جو دوریاں قائم تھیں ، ان کے تقریباََ خاتمے کا راستہ ہموار ہو گیا ہے۔چنانچہ معاشی طور پر کمزور طبقات (ای ڈبلیو ایس)کے لیے 10 فیصد ریزرویشن سے متعلق آئین کی 103ویں ترمیم اور اس کی حمایت میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا کھلے دل سے سب کو استقبال کرنا چاہئے۔