ارشد شریف پر تشدد کی تصدیق کر سکتا ہوں اور نہ ہی تردید: سربراہ پمز اسپتال

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 12th Nov.

اسلام آباد،12نومنر:پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے سربراہ نے تصدیق کی ہے کہ کینیا میں مبینہ طور پر قتل ہونے والے صحافی ارشد شریف کے جسم پر 10 سے 12 نشانات ہیں۔ تاہم اْن کے بقول اْن پر تشدد کی تصدیق کینیا سے آنے والی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد ہی ممکن ہو سکے گی۔وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پمز کے سربراہ ڈاکٹر خالد مسعود کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کے پوسٹ مارٹم کے فارنزک تجزیے کے لیے مختلف نمونے حاصل کیے گئے تھے۔اْن کے بقول ان سیمپلز کی مکمل رپورٹ آنے کے بعد ہی حتمی طور پر یہ پتا چلے گا کہ ارشد شریف پر تشدد ہوا تھا یا نہیں۔ڈاکٹر خالد مسعود کا کہنا تھا کہ وہ جس سیٹ پر ہیں اس پر بیٹھ کر وہ نہ تشدد کی تصدیق کر سکتے ہیں اور نہ ہی تردید۔اْنہوں نے ارشد شریف کے ایک ہاتھ سے چار ناخن نکالے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں ہمیں کینیا سے آنے والی پوسٹ مارٹم رپورٹ کا انتظار ہے۔خیال رہے کہ ارشد شریف کی میت پاکستان لانے کے بعد پمز اسپتال میں بھی اْن کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا۔ڈاکٹر خالد مسعود کا کہنا تھا کہ ” کینیا سے ا?نے والی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد ہی پتا چلے گا کہ یہ ناخن فارنزک کے لیے نکالے گئے ہیں یا واقعی ان پر تشدد ہوا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ اہل خانہ کو دینے کے حوالے سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن ان کے اہل خانہ نے اب تک ہم سے رابطہ نہیں کیا۔ ہم نے ابتدائی رپورٹ اسلام آباد کے تھانہ رمنا کو فراہم کردی ہے۔ اگر اہلِ خانہ ہم سے رابطہ کریں گے تو ہم انہیں لازمی یہ رپورٹ فراہم کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ آئندہ چند دن میں فارنزک رپورٹ ا?نے کے بعد حتمی رپورٹ تیار کی جائے گی جو اہل خانہ اور مقامی پولیس کو فراہم کردی جائے گی۔ڈاکٹر خالد مسعود نے کہا کہ ہم نے پروٹوکول کے مطابق سیمپلز لیے ہیں اور تھانے کے عملے کو یہ سیمپل فراہم کردیے گئے جنہوں نے پنجاب فارنزک ایجنسی کو یہ سیمپلز بھجوا دیے ہیں۔اب ایجنسی کی رپورٹ پولیس کو ملے گی جو وہ ہمیں فراہم کریں گے جس کے بعد اس رپورٹ کی روشنی میں حتمی رپورٹ تیار کی جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ کچھ اعضا کے نتائج تین سے پانچ دن کے وقفہ کے بعد ملتے ہیں اور ان سب کی مکمل رپورٹ آنے کے بعد ہی اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہا جاسکے گا۔ارشد شریف کے جسم پر تشدد کی تصاویر میڈیا پر لیک ہونے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ تصاویر پمز اسپتال سے ہی لیک ہوئی ہیں اور ہم انہیں لیک کرنے کے حوالے سے تحقیقات کررہے ہیں۔ البتہ ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں پیمرا کو ایکشن لینا چاہیے اور معاملے کی حساسیت کے پیش نظر ان تصاویر کو ٹی وی پر چلانے کے حوالے سے ان چینلز کو روکنا چاہیے۔