اللہ کو پہچانئے ،اُس سے ڈریے اور کفر وشرک سے بچئے

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 17th Nov.

ابونصر فاروق

سارے جہانوںکا پروردگار اللّٰہ ہے:
در حقیقت تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا ،جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے، جس نے سورج ،چاند اور تارے پیدا کیے، سب اس کے فرمان کے تابع ہیں۔ خبر دار رہو! اسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے بڑا بابرکت ہے اللہ سارے جہانوں کامالک و پروردگار۔(اعراف:۵۴)
اللہ تعالیٰ رب ہے یعنی سبھوںکی پرورش کرنے والا پروردگار۔ تمام عالم کا خالق یعنی پیدا کرنے والا بھی وہی ہے۔جب پیدا اُس نے کیا ہے تو پرورش بھی اُسی کی ذمہ داری ہے۔اوپر کی آیت میںآسمان اور زمین کے بنانے کی بات، رات اور دن اور سورج چاند تاروں کی بات کہی گئی ہے کہ وہ سب اللہ کے فرماں بردار ہیں۔اللہ نے زمین بنائی جس پر آدمی رہتا اور بستاہے، آسمان بنایا جس کاسورج انسان کو گرمی اور روشنی دیتا ہے۔ چاند بنایا جو دن اور تاریخ بتاتا ہے۔ تارے بنائے جو سمندر، صحرا اور جنگل میں چلنے والوں کو راستہ بتاتے ہیں۔آسمان سے پانی برسایا جس سے زمین میں غلے اور پھل پیدا ہوتے ہیںاور انسان کی غذا بنتے ہیں۔مویشی پیدا کئے جن سے انسان کو دودھ اور گوشت ملتا ہے ، کھانا بنتا ہے اور کھال ملتی ہے جس سے لباس بنتا ہے۔سمندر بنایا جس سے انسان سفر کرتا ہے اور اُس کا پانی بھاپ بن کر آسمان میں جمع ہوتاہے اور پھر برس کر زمین کو سیراب کرتا ہے۔پہاڑ بنائے جن کی وجہ سے زمین ہموار راستے پر حرکت کرتی رہتی ہے، ڈگمگاتی نہیں۔زمین کے پیٹ کو معدنیات سے بھر دیا جن سے انسان طرح طرح کی مصنوعات بناتا ہے۔معدنی تیل اور گیس کا ذخیرہ جمع کر دیا جس کی بدولت دنیا آج ترقی کی بلندی پر پہنچ گئی ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد یونہی چھوڑ نہیں دیا بلکہ اُس کے زندہ رہنے،زندگی گزارنے کے اسباب مہیا کرنے،لطف و لذت کے ساتھ زندگی بسر کرنے اور تمدن کی ترقی کے سارے اسباب بھی میسر کرائے۔
آسمان و زمین کا رب اللّٰہ ہے:
ان سے پوچھو آسمانوں اور زمین کا رب کون ہے ؟۔۔۔۔۔کہو اللہ ! پھر ان سے کہو کہ جب حقیقت یہ ہے تو کیا تم نے اُسے چھوڑ کر ایسے معبودوں کو اپنا کارساز ٹھہرا لیا جو خود اپنے لئے بھی کسی نفع ونقصان کا اختیار نہیں رکھتے؟ کہو کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہوا کرتا ہے ؟ کیا روشنی اور تاریکیاں یکساں ہوتی ہیں ؟ اور اگر ایسا نہیںہے تو کیا اُن کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں نے بھی اللہ کی طرح کچھ پیدا کیا ہے کہ اُس کی وجہ سے اُن پر تخلیق کا معاملہ مشتبہ ہو گیا ؟ کہو ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے اور وہ یکتا ہے سب پر غالب۔(الرعد:۱۶)
جو لوگ اللہ کو چھوڑ کراپنی مرادیں پوری کرنے کے لئے یا اپنی کسی مصیبت کو دور کرنے کے لئے جن دوسری ہستیوں کوپکارتے ہیں،وہ سب خود محتاج ہیںہر وقت اللہ سے فریاد کرتے رہتے ہیں،بھلا وہ کسی انسان کی کیا مدد کر سکتے ہیں؟ غیر اللہ کو مدد کے لئے پکارنا اللہ کی حاکمیت اور ربوبیت کا انکار کرنا ہے جو کفر ہے۔اللہ کے کارخانے میں دوسروں کو بااختیار سمجھ کر اُن سے مدد مانگنا اللہ کے کام میں اُن کو شریک بنانا ہے جو شرک ہے۔کفر اور شرک اللہ کی نافرمانی بھی ہے، قرآن کے احکام کا انکار بھی ہے اور رسول اللہﷺ پر ایما ن نہیں لانے کی پہچان بھی ہے۔
اللّٰہ اپنے بندوں سے قریب ہے:
اور اے نبیﷺ ! میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو انہیں بتادو کہ میں اُن سے قریب ہی ہوں۔پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے ، میں اُس کی پکار سنتا اور اُس کا جواب دیتا ہوں۔لہٰذا اُنہیں چاہئے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔یہ بات تم اُنہیں سنا دو شاید کہ وہ سیدھی راہ پالیں۔ (البقرہ: ۱۸۶)
اللّٰہ کے سوا دوسری ہستیاں دعاؤں کا جواب نہیں دے سکتی ہیں:
اُسی (اللہ)کو پکارنا برحق ہے، رہیں وہ دوسری ہستیاں جنہیں یہ لوگ اس کو چھوڑ کر پکارتے ہیں، وہ اُن کی دعاؤں کا جواب نہیں دے سکتیں۔اُنہیں پکارنا تو ایسا ہے جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلا کر درخواست کرے کہ تومیرے منہ تک پہنچ جا، حالانکہ پانی اُس تک پہنچنے والا نہیں، بس اسی طرح کافروں کی دعائیں بھی کچھ نہیں ہیں مگر ایک بیکار کام۔(الرعد: ۱۴ )
سب کچھ اللّٰہ نے پید ا کیا ہے:
کیسے نادان ہیں یہ لوگ کہ اُن کو خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کئے جاتے ہیں، جو نہ اُن کی مدد کر سکتے ہیں نہ خود اپنی مدد کی قدرت رکھتے ہیں۔(اعرف:۱۹۰)
اللہ تعالیٰ اپنے نبی کے ذریعہ انسانوں کو بتارہا ہے کہ وہ اُ ن سے قریب ہے، پکارنے والا جب اُس کو پکارتا ہے تو وہ اُس کی پکار سنتا ہے اور جواب بھی دیتا ہے، لہٰذا آدمی کو چاہئے کہ اپنی ہر ضرورت کے لئے صرف اُسی کو پکارے اور اُسی سے مدد مانگے۔اس آیت سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ آدمی کو چاہئے کہ ہر موقع پر ہر ضرورت کے لئے صرف اللہ سے دعا کرے۔اللہ سے دعا نہ کرنااُس کے حکم کو نہیں ماننا ہے اور اُس کی قدرت کا انکار کرنا ہے۔
اللّٰہ کی رحمت سے کافر مایوس ہوتے ہیں:
میرے بچو! جا کر یوسف اور اُس کے بھائی کی کچھ ٹوہ لگاؤ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اُس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔ (یوسف: ۱۰۰ ) اللہ کو نہیں پکارنا اور سمجھنا کہ وہ تو ہماری پکار سنتا ہی نہیں، اُس سے مایوس ہو جاناہے جو درحقیقت کفر ہے۔سورہ حدید کی آیت بتارہی ہے کہ زمین وآسمان میں جو کچھ ہو رہاہے اللہ جانتا ہے، وہ ہر وقت اپنے بندے کے ساتھ ہے اور بندے کے دلوں کے بھید تک جانتا ہے۔
آسمان و زمین کا بادشاہ صرف اللّٰہ ہے:
وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور پھر عرش پر جلوہ فرما ہوا،اُس کے علم میں ہے جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اُس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ آسمان میں چڑھتاہے۔وہ تمہارے ساتھ ہے جہاںبھی تم ہو۔جو کام بھی تم کرتے ہو اُسے وہ دیکھ رہا ہے۔وہی آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک ہے اور تمام معاملات فیصلے کے لئے اُسی کی طرف رجوع کئے جاتے ہیں۔وہی رات کو دن میں اور دن کو رات میںداخل کرتا ہے اور دلوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔ (الحدید:۴/۶)
اللہ تعالیٰ چونکہ ہر وقت انسان کے ساتھ ہے،اُس کے سامنے موجود ہے، اُس کی شہہ رگ سے بھی قریب ہے، اُس کے دل میں پیدا ہونے والے وسوسوںتک کو جانتا ہے اس لئے بندے کی پکار کسی ذریعہ کے بغیر سنتا ہے اور جواب بھی دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہر وقت زندہ ہے اور سارے عالم کی نگرانی کررہا ہے، جبکہ اللہ کے سوا دوسری ہستیاںمر جاتی ہیں،نہ سن سکتی ہیں نہ پکار کا جواب دے سکتی ہیں۔جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم اور اُس کی اجازت نہ ہو کسی کی طاقت نہیں کہ پکارنے والے کی پکار سن سکے اور اُس کی مدد کر سکے۔
اللّٰہ سے ڈرو جیسا ڈرنا چاہئے:
اے ایمان لانے والو اللہ سے ڈرو جیسا کہ اُس سے ڈرنے کا حق ہے۔ تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔ (آل عمران:۱۰۲)
ایمان لانے کے بعدتقویٰ کا تقاضہ ہے کہ ایمان والے سب سے زیادہ اللہ سے ڈرے اور اُس کے مقابلے میں کسی کا خوف نہ کرے۔اُس کو اس بات کا یقین رہے کہ اللہ اُس کو عذاب دینا چاہے تو کوئی اُسے بچا نہیں سکتا ہے اور وہ اللہ کی حفاظت میں رہے تو کوئی اُس کو نقصان نہیں پہنچا سکتا ہے۔
ایمان والے اللّٰہ کو محبوب رکھتے ہیں:
کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اُس کا ہمسر اور مد مقابل بناتے ہیں اور اُن کے ایسے دیوانے ہیں جیسی اللہ کے ساتھ دیوانگی ہونی چاہئے، حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں۔ (البقرہ: ۱۶۵)
انسان کو سب سے زیادہ اللہ سے محبت ہو اوراللہ کی محبت ہر محبت پر غالب آ جائے۔ جو اہل کفر وشرک ہیں وہ اللہ کی جگہ اپنے باطل معبودوں سے محبت اور عقیدت رکھتے ہیں اسی طرح مسلمانوں میں بھی بعض ایسے گمراہ ہیں جو اللہ سے نہیں ڈرتے مگر دوسری ہستیوں سے ڈرتے ہیں کہ وہ ناراض ہو جائیں گی تو اُن کی دنیا برباد ہو جائے گی۔
انصاف وعدل پر قائم رہنا اللّٰہ سے ڈرنا ہے:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جاؤ،عدل کرو یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے،اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے پوری طرح با خبر ہے۔(المائدہ: ۸)
اللہ سے ڈرنے کی ایک علامت یہ بتائی جارہی ہے کہ غصہ پر قابو رہے ، غصے میں انسان اتنا بے قابو نہ ہو جائے کہ عدل و انصاف کی جگہ ظلم و زیادتی اور ناانصافی پر آمادہ ہو جائے۔اسلام نے ظلم ہونے پر انتقام لینے کا حق دیا ہے لیکن یہ بھی فرض کیا ہے کہ انتقام اتنا ہی لو جتنا ظلم ہوا ہے۔اگر انتقام لینے میں کوئی حد سے بڑھ گیا تو پھر وہ ظالم بن جائے گا اور اللہ کی رحمت سے محروم ہو جائے گا۔
ایمان والے اللّٰہ کا ذکر سن کرلرز جاتے ہیں:
سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات اُن کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو اُن کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں۔(انفال:۲)
ایمان والوں کی پہچان یہ بتائی جارہی ہے کہ جب قرآن پڑھا جاتا ہے تو اہل ایمان اور اہل تقویٰ کے دل لرزنے او رکانپنے لگتے ہیں۔قرآن سننے کے بعد تقویٰ کی یہ کیفیت اُنہیں لوگوں کے اندر ہو سکتی ہے جو قرآن کا معنی سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کیا کہہ رہا ہے۔جو لوگ قرآن کو معنی کے ساتھ نہیں پڑھتے وہ قرآن سن کرسمجھ ہی نہیں سکتے کہ کیا کہا جا رہا ہے اور کس چیز سے ڈرایا جارہا ہے۔ اُن کے دلوں میں تقویٰ کبھی پیدا ہو ہی نہیں سکتا ہے۔
فتنے میں سب پڑ جائیںگے:
اور بچو اُس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اُنہیں لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔(انفال: ۲۵)
جب انسانوں کی نافرمانی حد سے بڑھ جاتی ہے اور سماج میں فحش او ر منکررواج پاجاتا ہے اور نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے سماج میں نہیں ہوتے ہیں تو پھر اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے۔اور جب اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے تو اُس وقت اُس عذاب کے حقدار صرف وہی لوگ نہیں ہوتے ہیں جو گنہگار ہوتے ہیں ، بلکہ وہ عبادت گزار اور صاحبان تقویٰ و طہارت بھی ہو جاتے ہیں جو روایتی انداز کی عبادت گزاریوں میں لگے رہتے ہیں۔ مسلمانوں کی عظیم اکثریت اس وقت کافرانہ روش اختیار کئے ہوئے ہے۔نہ نماز کی پابند ہے نہ شریعت کے احکام کی پیروی کرتی ہے اور نہ ہی نبی ﷺ کی سچی اطاعت کرتی ہے۔ کافروں جیسی زندگی بسر کر رہی ہے۔اللہ کے نزدیک اس کی کوئی عبادت اور کوئی عمل نیکی ہے ہی نہیں۔ایسے لوگوں پر اللہ کا عذاب صرف آخرت میں ہی نہیں دنیا میں بھی ہوتا ہے۔
ۃضظژظضۃ
رابطہ:8298104514