شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی میں بہار کی اردو صحافت پر سمپوزیم شعبے سے فارغ صحافیوں کو اسناد واعزاز سے نوازا گیا

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 24 th Nov.

 

(پٹنہ۔۲۴ نومبر) ـ’’اردو صحافت کا مزاج ابتدا سے باغیانہ واحتجاجی رہاہے ۔ جو صحافت جذباتی انداز کی ہوتی ہے وہ نابالغ ذہنوں کو متاثر کرتی ہے ۔ سنگم، صدائے عام ، پندار، اور قومی تنظیم وغیرہ نے صحافت کو فروغ دینے میں نمایاں کردار اداکیا ہے ۔ آج بہار سے متعدد اخبار نکل رہے ہیں جو اپنی اپنی صورت میں اردو صحافت کو آگے بڑھارہے ہیں ۔ ادبی صحافت کی شروعات بہار میں ’’ندیم‘‘ سے ہوئی جو صبح نو، آہنگ اور مورچہ جیسے رسائل سے ہوتے آج اس منزل تک پہنچی ہے کہ دربھنگہ ٹائمز ، ثالث اور تمثیل نو وغیرہ پابندی سے نکل پارہے ہیں ۔ شعبہ اردو کا جریدہ ’’اردو جرنل‘‘ پہلا رسالہ ہے جو کسی یونیورسٹی سے جاری ہوا اور اس نے دوسری یونیورسٹیوں کو راغب کیا مگر اردو جرنل اپنے معیار کے اعتبارسے سب میں منفرد اور ممتاز ہے‘‘ ۔ ان خیالات کا اظہار شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی میں منعقد ایک سمپوزیم میں صدارتی خطبہ دیتے ہوئے پروفیسر اعجاز علی ارشد نے کیا ۔ واضح ہوکہ شعبہ اردو میں اردو صحافت کی دو صدی کی تکمیل پر گذشتہ سال جس جشن صحافت کا آغاز کیا گیا تھا اس کی اختتامی تقریب منعقد کی گئی تھی ۔ اس تقریب کا موضوع ’’بہار میں اردو صحافت : سمت ورفتار‘‘ تھا جس پرمقررین نے اظہار خیال کیا ۔
تقریب سے افتتاحی اور استقبالیہ خطاب میں صدرشعبہ ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے اغراض ومقاصد بیان کرتے ہوئے بتایاکہ یہ نہ صرف دو  صد سالہ جشن صحافت کی تکمیل ہے بلکہ صحافت کے میدان میں اترنے والے نوجوانوں کے لئے حوصلہ افزا اورمشعل راہ بھی ہے ، کیونکہ شعبے سے اردو جرنلزم کورس مکمل کرکے فعال صحافی نوجوانوں کو توصیفی اسنادواعزاز سے نوازا جائے گا۔ انہوں نے بہار میں اردو صحافت کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے موجودہ صورت حال کا بھی بے باک جائزہ لیا اور کہا کہ صحافی حضرات کو سنجیدہ ہوناہوگا، اپنی زبان ، تہذیب اور صحافت کی بقا کی فکر کرنی ہوگی اور کاسہ لیسی کے بجائے ایک بار پھر وہ قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا جو ماضی میں حکومتوں کو متززل کردیتاتھا اور پایہ تخت لرزہ طاری ہوجاتاتھا۔ مہمان خصوصی روزنامہ قومی تنظیم کے مدیر اشرف فرید نے کہا کہ آج صحافت کی دنیا وسیع ہوگئی ہے ۔ اس میں نوجوانوں کے لئے ترقی کے کافی مواقع ہیں ۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے متعدد محکموں میں صحافت کورس کی تکمیل کے بعد لوگ کامیاب ہورہے ہیں ۔ فلم اور ٹی وی کی دنیا میں بھی اردو زبان اور اردو صحافت کورس کی افادیت مسلم ہے ۔ معروف سیاستداں ڈاکٹر اظہار احمدنے کہا کہ اخبار نکالنا سمندر میں راہ بنانے جیسا مشکل کام ہے ۔ جو لوگ یہ کام کررہے ہیں وہ کئی طرح کی قربانیاں دے رہے ہیں ۔ اخبارات پر تنقید کرنا آسان ہے مگر اس کٹھن راہ سے گزرنا آسان نہیںہے ۔ اردو کے فروغ کی راہ تیار کرنے کے لئے ہر فرد کو آگے بڑھنا ہوگا۔ ڈاکٹر قاسم خورشید نے کہاکہ صحافت میں تعمیری رویہ اپنانا چاہئے ۔ دوسروں پر تنقید سے پہلے خود احتسابی کرنا بھی ضروری ہے ۔ موجودہ صحافت ماضی کی صحافت سے الگ ہے اس لئے دونوں کا موازنہ درست نہیں ۔ صحافی کی تحریر اور شخصیت میں تضاد نہیں ہونا چاہیے ۔ معروف صحافی ڈاکٹر ریحان غنی نے کہا کہ اردو صحافت انگریزی اور ہندی صحافت سے بالکل الگ ہے ۔ اردو کی تہذیبی وثقافتی قدریں دوسری زبانوں کے مماثل نہیں ہیں ۔ اردو صحافت رائے عامہ ہموار کرتی ہے ۔ معیار کی کمی کے باوجود یہ آج بھی تہذیب کی بقا میںمعاون ہے ۔ زبان کے فروغ میں تحریکی کردار ادا کرنا بھی اخبار کاکام ہے جو روزنامہ قومی تنظیم کی جانب سے بخوبی ہورہاہے ۔ جناب خورشید اکبر نے کہا کہ تمام اخبارات کی نوعیت معیار میں یکساں ہوتی ہے ضرورت ہے کہ پروفیشنل بن کر بھی سچ کا ساتھ دیا جائے ۔ انہوں نے نوجوان صحافیوں کو تلقین کی کہ سچائی کو صحافت کا حصہ بنایئے ۔معروف صحافی راشد احمد نے کہاکہ صحافت کی معیار میں یقیناً کمی آئی ہے مگر ہر دور میں اچھے صحافی بھی ہوئے ہیں ۔ اس دنیا میں مواقع کی کمی نہیں شرط یہ ہے کہ آپ اپنی صلاحیت کا اعتراف کروالیں ۔ آپ کے اندر پرفیکشن ہونا چاہئے ۔ صحافت میں تحقیق لازمی عنصر ہے ۔ صحافت کا کام کردار کشی نہیں ہے ۔ صحافی کو ہر رپورٹ سے خود الگ کرلینا چاہیے اور ہمیشہ مثبت وتعمیری رویہ اختیار کرنا چاہئے ۔ نیوز 18 کے صحافی محفوظ عالم نے کہا کہ صحافی کو پروفیشنل ہونا چاہئے ۔ ہم صحافت میں جذباتی ہوجاتے ہیں ۔ اردوزبان یا صحافت کو فروغ دینا ہے تو جذباتی کے بجائے تکنیکی وعملی طورپر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کرنا سیکھیں ۔ پروفیسر اسرائیل رضا نے مشورہ دیا کہ اردو ایڈیٹر کاؤنسل پھر سے قائم کیا جائے اور اردو صحافت کے مسائل اس کاؤنسل کے ذریعے حل کیے جائیں ۔
اس موقع پر شعبہ اردو سے اردو جرنلزم کورس مکمل کرکے جونوجوان عملی طورپر وابستہ اور متحرک ہیں انہیں شعبہ اردو کی جانب سے توصیفی اسناد اور اعزازات سے بھی نوازا گیا جن میں نواب عتیق الزماں ، عارف اقبال ، انوار اللہ ، سراج الدین ،زریں فاطمہ ، نازیہ نوشاد ، یحییٰ فہیم ، قسیم اختر ، رضیہ سلطانہ اور مشتاق خان کے نام شامل ہیں ۔ اسناد حاصل کرنے کے بعد عارف اقبال ، نازیہ نوشاد اور عتیق الزماں نے تاثرات کااظہار کیا اور مسرت کا موقع بتاتے ہوئے بالخصوص صدر شعبہ اردو شہاب ظفر اعظمی کا شکریہ ادا کیا ، جو اس کورس کے کوآرڈنیٹر بھی رہے ہیں ۔ اس اجلاس میں اردو کے طلبہ ، طالبات ، ریسرچ اسکالرز، اساتذہ کے علاوہ بڑی تعداد میں عظیم آباد کے صحافی ، ادبا، شعرا اور اہل ذوق نے شرکت کی جن میں سید محمد شہباز ، جاوید اختر ، اسحاق اثر ، افضل حسین ، امتیاز کریم ، زرنگار یاسمین ، آصف نواز، روی آنند ، سرورعالم ندوی ، سعید عالم انصاری، محمد اسلم ، سورج دیو سنگھ ، ضمیر رضا ، ہاشم رضا، بالمیکی رام ، عبدالباسط حمیدی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔تقریب کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر عارف حسین نے بخوبی انجام دیے۔