شہہ اور مات کا کھیل جاری

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 7th Nov.

بہارکی سیاسی بساط پر شہہ اور مات کا کھیل جاری ہے۔1990 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو نے لال کرشن اڈوانی کے’’ رام مندر نرمان رتھ یاترا‘‘ کو بہار میں روکا تھا۔21ویں صدی کی تیسری دہائی میں بی جے پی کے’’ وجے رتھ‘‘ کو روکنے کے لیے نتیش کمار اور تیجسوی یادو متحد ہو گئے ہیں۔ انھی دونوں لیڈروں کے اتحاد پر عظیم اتحاد کی طاقت کا انحصار ہے۔فطری طور پر بی جے پی کو یہ اتحاد قطعی پسند نہیں ہے۔بہار بی جے پی کی نظر 2024 کے لوک سبھا انتخابات پر ہے۔چنانچہ وہ ابھی سے نئے دوستوں کی تلاش میں ہے تاکہ 2024 سے پہلے بہار میں این ڈی اے کا قبیلہ بڑھ جائے۔ دوسری جانب بہار میں ہوئے ضمنی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد باہم حریف جماعتوں کی طرف سے طرح طرح کے دعوے کیے جا نے لگے ہیں۔دونوں کے دعوے یہ بتا رہے ہیں کوئی کسی سے کم نہیں ہے۔عظیم اتحاد کی اہم حلیف جماعت آر جے ڈی کا دعویٰ ہے کہ ایم ایل ایز کی تعداد کے اعتبار سےہم نمبر ون پر ہیں تو بی جے پی یہ بتانے کی کوشش میں ہے کہ مکامہ اسمبلی حلقہ کے ضمنی انتخابات میں ہمارا بڑھا ہوا ووٹ فیصد اس بات کا ثبوت ہے کہ نتیش کمار کا ساتھ چھوڑنے کے بعد بہار کے عوام میں بی جے پی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔
بہار کے ضمنی انتخابات کے تعلق سے بی جے پی کے مذکورہ خیالات سے تھوڑا الگ ہٹ کر دیکھنے پر بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اگر اے آئی ایم آئی ایم اور بی ایس پی نے بالواسطہ طور پر ساتھ نہیں دیا ہوتا تو گوپال گنج میں بی جے پی کی آبرو بچنے والی نہیں تھی، گوپال گنج کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا ماننا ہے کہ بی جے پی آخری وقت میں چراغ پاسوان کو اپنی پرچار مہم میں شامل کر کے دور اندیشی کا ثبوت دیا تھا۔کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر بی جے پی نے بروقت یہ فیصلہ نہیں لیا ہوتا تو پاسوان سماج کے ایک بڑےطبقے کا ووٹ بی جے پی کی جانب شفٹ نہیں ہو پاتااور پھر ضمنی انتخابات لڑائی ڈرا پر ختم نہ ہوتی۔
سیاسی ماہرین کے مطابق گوپال گنج جیسی روایتی سیٹ پر اگر بی جے پی 1786وو ٹوں سے کامیاب ہوتی ہے اس کا کریڈٹ بہار بی جے پی کے لیڈروں کو نہیں بلکہ چراغ پاسوان کو جاتا ہے۔ گوپال گنج کے زمینی حقائق سے واقف لوگوں کا کہناہے کہ ابتدائی مرحلے میں پاسوان ذات کے ووٹر آر جے ڈی کے امیدوار کے حق میں تھے، لیکن آخری دور میں بی جے پی نے چراغ پاسوان کو انتخابی میدان میں اتار کر آر جے ڈی کا کھیل خراب کردیا۔ چراغ پاسوان نے گوپال گنج میں روڈ شو کر کے پورا ماحول بدل دیا۔ جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اسی وجہ سے یہ بات چرچا میں ہے کہ چراغ پاسوان اگر ابھی ابھی اپنے دم پر پاسوان سماج کے کچھ فیصد ووٹ کو ادھر سے ادھر کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں تو یہ عظیم اتحاد کے لئے کسی خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں ہے۔
مکامہ سیٹ کے حوالے سے اگر ضمنی انتخابات کے نتائج کی بات کی جائے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عظیم اتحاد کے لیڈروں سے زیادہ بی جے پی لیڈروں کے لئے خوش ہونے کا موقع ہے۔بی جے پی کے لئے خوشی کا موقع اس لئے ہے کہ 27 برسوں کے بعد بی جے پی اکیلے مکامہ کے انتخابی میدان میں تھی۔اس کو ایسے بھی کہا جا سکتا ہے کہ بی جے پی نتیش کمار کو ان کے گھر میں چیلنج کر رہی تھی۔مکامہ کبھی باڑھ پارلیمانی حلقے کا حصہ تھا۔ نتیش کمار طویل عرصے تک لوک سبھا میں باڑھ کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ ایسے میںمکامہ جیسی سیٹ پربی جے پی کو تقریباً 63 ہزار ووٹ کا ملنا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ تقریباََ 79 ہزار ووٹ حاصل کرکے مکامہ سیٹ جیتنے کے باوجود یہاں کا نتیجہ عظیم اتحاد کے لئے یہ سبق ہے کہ حریف کمزور نہیں ہے۔
مکامہ سیٹ کے حوالے سے بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی کو زمین سے اٹھا کر آسمان پر پہنچانے میں بھی چراغ پاسوان کا اہم رول رہا ہے۔کہا جاتا ہے کہ مکامہ میں انتخابی مہم آخری مرحلے میں تھی۔مہم کے بالکل آخری دن بی جے پی نے چراغ پاسوان کو انتخابی میدان میں اتارا اور روڈ شو کیا ۔ چراغ کے روڈ شو میں لوگوں کا ہجوم تھا۔ ووٹنگ سے دو دن پہلے ہی ماحول بدلا بدلا سا نظر آنے لگا تھا۔مکامہ اور مکامہ کے لوگوں کے لئے چراغ پاسوان نئے نہیں تھے۔ 2020 کے اسمبلی انتخابات میں چراغ پاسوان نے اپنے بل بوتے اپنا امیدوار کھڑا کرکے 13 ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کئےتھے۔ چراغ کے روڈ شو نے مکامہ کے لوگوں کو یہ احساس دلا دیا تھا کہ بی جے پی انتخابی دوڑ میں پوری مضبوطی کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہ اسی احساس کا نتیجہ ہے کہ پی جے پی 63 ہزار ووٹ حاصل کر سکی۔
بہار کے حالیہ ضمنی انتخابات کے بعد بی جے پی کو بظاہر بھلے ہی کچھ فائدہ نہیں حاصل ہوا ہو لیکن چراغ پاسوان کے طور پر اس نے ایک ایسے لیڈر کو ضرور پا لیا ہے جو عظیم اتحاد کے ساتھ مقابلے میں بڑھ چڑھ کر ساتھ دے سکتا ہے۔چنانچہ اس انتخاب کے بعد بی جے پی کی نظر اب سیدھے 2024 پر ہے۔اس کے لئے بہار بی جے پی کو کچھ اور مضبوط ساتھیوں کی ضرورت ہے۔ بی جے پی کی اس ضرورت کو کون پورا کرے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن یہ بات تو طے ہے کہ 2024 کی انتخابی بساط ابھی سے بہار میں نہ صرف بچھ چکی ہے بلکہ
شہہ اور مات کا کھیل بھی جاری ہے۔