مولانا ابوالکلام آزاد کا نظریۂ تکثیریت

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 10th Nov.

پروفیسر مشتاق احمد
رجسٹرار، للت نرائن متھلا یونیورسیٹی، دربھنگہ

مولانا ابوالکلام آزاد(۱۱؍ نومبر ۱۸۸۸ء۔۲۲؍ فروری ۱۹۵۸ء) اپنے عہد کے ایک عظیم دانشور ، مفکّر، مصلحِ قوم اور ایک حسّاس ذہن سیاسی مدبّر تھے۔ انہوں نے انسانی معاشرے کے معاملات ومسائل کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور بالخصوص ہندوستانی عوام کے شب وروز کو بہت قریب سے دیکھنے کی کوشش کی تھی ۔نتیجتاً وہ عوام کے اندر سوئی ہوئی انسانیت کو جگانا چاہتے تھے اور اپنے وطنِ عزیز ہندوستان کو غلامی کے طوق سے نجات دلانااپنی زندگی کا مقصدِ اولین سمجھتے تھے۔ وہ صرف حصولِ آزادی کے ہی قائل نہیں تھے بلکہ ان کا واضح تصورِ زیست اور نظریۂ عمل یہ تھا کہ اس دنیا میں جتنے بھی انسان ہیں ان سب کا مذہب صرف انسانیت ہے ۔ ان کی نگاہ میں مذہب ، نسل،فرقہ ، ذہنی تعصبات وتحفظات اور تمام تر ازم باطل ہیں۔ وہ حب الوطنی کو ایمان کا درجہ دیتے تھے اور فلاحِ انسانیت کے لئے انسانی ہمدردی کو فرض سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی عملی زندگی میں کبھی بھی متنازعہ شخصیت نہیں رہے بلکہ ان کی نگاہوں میں بھی وہ محترم رہے جن کو ان سے نظریاتی اختلاف رہا۔دراصل مولانا ابوالکلام آزاد کی مکمل زندگی اسلامی شریعت کی آئینہ دار تھی،وہ قرآن وسنت کو پورے عالمِ انسانیت کے لئے نسخۂ فلاح وبہبود کا ذریعہ سمجھتے تھے اور دوسرے مذاہب میں جو انسانی ہمدردی کے اسباق ہیں اس پر عمل کرنا بھی انسانی معاشرے کے لئے لازمی تصور کرتے تھے۔
ہم سب اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ مولانا ابوالکلام آزاد کی پیدائش مکّہ مکرمہ میں ہوئی تھی اور مکّہ کو دنیا کے خطۂ امن کا درجہ حاصل ہے۔ مکّہ کی پرنور فضا میں نہ صرف ان کی آنکھ کھلی بلکہ دس سالوں تک ان کی پرورش بھی ہوئی۔بچپن میں ہی انہوں نے میثاقِ مدینہ کا مطالعہ کیا تھا اور اس کے اسباق ان کے ذہن پر ثبت ہوگئے تھے۔ دراصل میثاقِ مدینہ اسلامی معاشرے کا ایک ایسا ضابطۂ تحریر تھا جو نہ صرف پہلی اسلامی ریاست کا دستور تھا بلکہ عالمی تہذیب وتمدن کی تاریخ میں اس طرح کا ضابطۂ انسانی معاشرہ قبل ازیں تحریر نہیں ہوا تھااور مولانا آزاد کے ذہن کے گوشے گوشے میں میثاقِ مدینہ کے چراغ روشن ہوگئے تھے اور جب ان کا خاندان ہندوستان منتقل ہوا تو ان کے اکابرین نے ایک ایسے شہر کو منتخب کیا جہاں پہلے سے ہی سناتن دھرم کے کئی مذہبی پیشوا اپنی تبلیغ کے ذریعہ عالمِ انسانیت کو سناتن دھرم کی روح ’’بسودئیو کٹمبھ کم‘‘ (olq/kSo dqVqEcde~)یعنی پوری دنیا ایک خاندان ہے کے سبق سے روشناس کرانے کی جدوجہد کر رہے تھے۔ ان میں راجا رام موہن رائے ( ۱۲؍ مئی ۱۷۷۲ء ۔ ۲۷؍ ستمبر ۱۸۳۳ء)، ایشور چندر ودیا ساگر (۲۶؍ ستمبر ۱۸۲۰ء۔۲۹؍ جولائی ۱۸۹۱ء)، دیا نند سرسوتی (۱۲؍ فروری ۱۸۲۴ء۔۳۰؍ اکتوبر ۱۸۸۳ء)، رام کرشن (۱۸؍ فروری ۱۸۳۶ء ۔ ۱۶؍ اگست ۱۸۸۶ء)اورسوامی ویویکا نند(۱۲؍ جنوری ۱۸۶۳ء۔۴؍ جولائی ۱۹۰۲ء) اہم ہیں۔ان مذہبی اور سماجی پیشوائوں نے ایک طرف بنگال میں سناتن دھرم کے فروغ کی فضا تیار کی تو دوسری طرف انسانیت کے اسباق بھی پڑھائے ۔غرض کہ مولانا آزاد کے ذہن ودل پر ایک طرف مکّہ کی جائے رحمت کی پرنور فضا نے اپنا گہرا نقشِ ابدی چھوڑا تو دوسری طرف ہندوستان کے شہر کلکتہ کی سناتنی فضا نے ان کی فکر ونظر کو مزید پختگی بخشی۔نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ایک مکمل انسان کی صفاتِ جمیلہ سے لبریز ہو کر عملی زندگی میں داخل ہوئے ۔
انہوں نے وسعتِ فکر ِ اسلامی سے اپنے مخاطب کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ یہ ثابت کر دکھایا کہ ان کی فکر عالمِ انسانیت کے لئے ذریعہ امن کا پیغام ہے ۔ جہاں تک مولانا ابوالکلام آزاد کے نظریۂ تکثیریت کا سوال ہے تو انہوں نے اپنی عملی زندگی، تحریروں اور تقریروں سے یہ ثابت کردکھایا کہ وہ ہندوستان کی مذہبی، تہذیبی اورثقافتی شناخت کے امین ہیں ، وہ فلاحِ انسانیت کے لئے مذہبی اتحاد کو لازمی سمجھتے ہیں ۔ بالخصوص ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد کو ملک کی تعمیر وترقی کے لئے بنیادی اینٹ تصور کرتے ہیں ۔دراصل مولانا آزاد کی ہمہ جہت شخصیت کے افہام وتفہیم کا مسئلہ ہنوز پیچیدہ بنا ہوا ہے کیوں کہ بیشتر آزاد شناسوں نے مولانا آزاد کی شخصیت اور فکر ونظر کی گہرائی وگیرائی تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ان کے متعلق ان کے اکابرین اور ہم عصروں کی آرا پر انحصار کیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جن کی نظر میں مولانا آزاد کی شخصیت پیکرِ فرشتہ کی رہی ہے ان لوگوں نے مولانا آزاد کی شان میں محض قصیدے پڑھے ہیں اور جن کی نگاہوں میں مولانا آزاد کی شخصیت نا پسندیدہ رہی وہ مولانا آزاد کی شخصیت اور فکر ونظرکی اہمیت ومعنویت کو مجروح کرنے کی روش عام کرتے رہے۔نتیجہ یہ ہوا کہ اب تک مولانا آزادکے ساتھ انصاف نہیں ہو سکا ہے۔ میرے خیال میں مولانا آزاد کی شخصیت اور افکار ونظریات کی جہتوں کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ مولانا آزادکی ہی تحریروںاور تقریروں کاغیر جانبدارانہ اور انصاف پسندانہ طورپر چراغِ علم ودانش کی روشنی میں تجزیہ کرتے ہوئے کوئی حتمی رائے قائم کی جائے۔جیسا کہ بیشتر غیر اردو داں مؤرخوں نے مولانا آزاد کی شخصیت اور فکر ونظر کا تجزیہ ان کی ذہنی روش اور تغیرِ زمانہ کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی بدلتی سیاسی فضا کی روشنی میں کیا ہے۔ مشہور عالمِ اسلامیات ہیملٹن الگزنڈرگب (H.A.R. Gibb) نے اپنی کتاب موڈرن ٹرینڈ اِن اسلام (Modern Trends in Islam)اورW.C. Smith( پروفیسر ویلفریڈ کینٹ ویل اسمتھ۔1916-2000)نے اپنی کتاب ’’Modern Islam in India: A Social Analysis اور سید محمود نے اپنی کتاب ’’ہندومسلم کلچرل اکورڈ(Hindu Muslim Cultural Accord)میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ہندستان میں انگریزوں نے جس طرح فرقہ واریت کی بنیاد پر اپنی حکومت کو استحکام بخشنے کی کوشش کی اور ہندو مسلمان کے درمیان نفاق پیدا کیا اس کے اثر کو زائل کرنے میں جن شخصیات نے اہم کردار ادا کیا ہے ان میں مولانا ابوالکلام آزاد کا اہم کردار رہا۔پروفیسر محمد مجیب نے اپنی کتاب The Indian Muslim (1960)میں بھی اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اگرچہ ہندوستانی مسلمانوں میں اتحاد کا واحد عنصر ان کا مذہب رہا ہے البتہ ان کی اس مذہبی شناخت کو مستحکم کرنے میں مولانا آزاد نے اہم رول ادا کیا ۔معروف مؤرخ تارا چند نے بھی اپنی کتاب History of the freedom Movement in India Vol. 3, 1972 میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ مولانا آزاد نے ہندوستان میں نظریۂ تکثیریت کو فروع دیا اور ہندوستانی مسلمانوںکے متعلق جو ایک غلط فہمی پھیلائی گئی تھی کہ مسلمانوں کا نظریہ قومیت نظریہ حب الوطنی سے مختلف ہے اس کو دور کرنے کی کوشش کی۔مختصر یہ کہ مولانا آزاد نے اپنے اعمال وکردار کے ذریعہ اپنی اسلامی شناخت کو بھی مستحکم کیا اور غلام ہندوستان کو آزادی دلانے کے لئے قومی اتحاد کے لئے ایک ٹھوس لائحہ عمل تیار کیا جوان کے رفقاء اور تحریکِ آزادی کے سپہ سالاروں کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہوا۔ بقول مولانا ابوالکلام آزاد:
’’ہندو مسلم اتحاد ہماری تعمیرات کی وہ پہلی بنیاد ہے جس کے بغیر نہ صرف ہندوستان کی آزادی بلکہ ہندوستان کی وہ تمام باتیں جو کسی ملک کے زندہ رہنے اور ترقی کرنے کے لئے ہو سکتی ہیں محض خواب وخیال ہیں ۔ صرف یہی نہیں کہ اس کے بغیر ہمیں قومی آزادی نہیں مل سکتی بلکہ اس کے بغیر ہم انسان کے ابتدائی اصول بھی اپنے اندر نہیں پیدا کر سکتے‘‘
(خطباتِ آزاد، مرتب مالک رام ۔ص:۲۰۴)
مولانا آزاد کا وہ خطبہ تو پوری دنیا میں چشم کشا کی حیثیت رکھتا ہے کہ جس میں انہوں نے کہا تھا :
’’آج اگر ایک فرشتہ آسمان کی بلندیوں سے اتر آئے اور قطب مینار پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کردے کہ سوراج چوبیس گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے بشرطیکہ ہندوستان ہندو مسلم اتحاد سے دست بردار ہو جائے تو میں سوراج سے دست بردار ہو جائوں گا مگر اس سے دست بردار نہ ہوں گا کیو ں کہ اگر سوراج کے ملنے میں تاخیر ہوئی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا لیکن اگر ہمارا اتحاد جاتا رہا تو یہ عالمِ انسانیت کا نقصان ہوگا‘‘
(خطباتِ آزاد، مرتب مالک رام ۔ص:۲۰۵)
مولانا ابوالکلام آزاد مذہب کو کسی طورپر بھی ذہنی ارتقاء کے لئے مضر تصور نہیں کرتے تھے بلکہ ان کا نظریہ تھا کہ مذہب انسان کوصالح کردار کا پیکر بناتا ہے اور ملک کی تکثیریت انسان کی فکر ونظر کو نئی قوت عطا کرتی ہے ۔ انہوںنے اپنے ایک خطبہ ’’مسلمان اور متحدہ قومیت‘‘ میں اپنے اس نظریے کی یو ں وضاحت کی ہے :
’’میں مسلمان ہوں اور فخرمحسوس کرتا ہوں کہ مسلمان ہوں ۔ اسلام کی تیرہ سو برسوں کی شاندار روایتیںمیرے ورثے میں آئی ہیں ۔ میں تیار نہیں کہ اس کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں۔ اسلام کی تاریخ ، اسلام کے علوم وفنون ، اسلام کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے اور میرا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں۔بہ حیثیت مسلمان ہونے میں مذہبی اور کلچرل دائرے میں اپنی ایک خاص ہستی رکھتا ہوں اورمیں برداشت نہیں کر سکتا کہ اس میں کوئی مداخلت کرے۔ لیکن ان تمام احساسات کے ساتھ میں ایک اور احساس بھی رکھتا ہوں جسے میری زندگی کی حقیقتوں نے پیدا کیا ہے ، اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی ، وہ اس راہ میں میری رہنمائی کرتی ہے۔ میں فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندوستانی ہوں ۔ میں ہندوستان کی ایک ناقابلِ تقسیم متحدہ قومیت کا ایک عنصر ہوں ، میں اس متحدہ قومیت کا ایک ایسا عنصر ہوں جس کے بغیر اس کی عظمت کا ہیکل ادھورا رہ جاتاہے ۔ میں اس کی تکمیل کا ایک ناگزیر عامل ہوں ۔ میں اپنے اس دعوے سے بھی دستبردار نہیں ہو سکتا‘‘۔
میرے خیال میں مولانا ابوالکلام آزاد کا نظریۂ ہندوستانی تکثیریت دراصل ان کی فکرِ اسلامی کا حاصل ہے کہ مذہبِ اسلام نے خدائے واحد کو پوری دنیا کا رب قرار دیا ہے اور مذہب سناتن نے پوری دنیا کو ایک خاندان کا تصور دیا ہے۔مولانا آزاد چوں کہ خود کو ہندوستان کی تہذیبی وتمدنی شناخت کا ضامن سمجھتے تھے اس لئے انہوں نے انسانی معاشرے کو قرآن وسنت کے ازلی وابدی اسباق اور مذہب سناتن کے اوصافِ جمیلہ کو اپنے پیغام کامحورومرکز بنایا ۔بقول پروفیسر عبدالمغنی :
’’اصولی طورپر مولانا ابوالکلام آزاد اپنے اسلامی نظریۂ حیات کے تحت تمام مخلوقات کو اللہ کا کنبہ تسلیم کرتے تھے اور عملی طورپر ہندوستان میں یہاں کے تمام فرقوں اور طبقوں کو متحد کرکے حرّیت، مساوات اور اخوت کی بنیادوں پر ان کی سیاسی ، معاشی ، تعلیمی اور اخلاقی بہبود کے لئے کوشاں تھے‘‘۔
خلاصۂ کلام یہ کہ ان کی فکر ونظر کا محور ومرکز ان کا نظریۂ فلاح وبہبودِ بشرہے اوروہ ہندوستان جہاں کثیر المذاہب، کثیر اللسان اور کثیر التہذیب وتمدن یعنی وحدت میں کثرت نسخۂ حیات کی مانندہے وہاں کی تکثیریت کی غیر معمولی تاریخی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں اور ان تاریخی تقاضوں کو وہ نہ صرف پورا کرتے ہیں بلکہ اپنی فکر ونظر کا ایک جزو بنا لیتے ہیں۔ اس لئے مولانا آزاد کا نظریۂ تکثیریت دراصل ان کانظریۂ حیات بھی ہے ، نظریۂ حریت بھی ہے اور نظریۂ حب الوطنی بھی۔سید عابد حسین نے بجا کہا تھا کہ:
’’دنیا میں کچھ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جن کی تشکیل میں تاریخ کا ہاتھ ہوتا ہے اور کچھ ایسی جو اپنے ہاتھوں سے تاریخ کی تشکیل کرتی ہیں۔ مولانا آزاد کا شمار بھی ایسی ہستیوں میں ہے جو تاریخ گر اور تاریخ ساز کہی جا سکتی ہیں‘‘۔
موبائل:9431414586

٭٭