Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 27th Dec.
پٹنہ (پریس ریلیز) غالب اردو شاعری کی آبرو ہیں، ان کے بغیر اردو شاعری کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی شاعری زبان، مذہب، قوم، ملک اور فکر ونظر کی تمام سرحدوں کو توڑتی ہوئی آفاقی ہوجاتی ہے۔ اردو میں غالب سے زیادہ مقبول، پڑھا جانے والا اور بڑا شاعر کوئی نہیں ہوا۔ ان خیالات کا اظہار شعبۂ اردو پٹنہ یونیورسٹی میں منعقدہ یوم غالب تقریب میں صدر شعبۂ اردو ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے کیا۔ انہوں نے طلبہ سے غالب کو زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ غالب کو اچھی طرح پڑھنے اور سمجھنے کے اہل ہوجاتے ہیں تو دوسرے تمام شعرا آپ کے لیے آسان ہوجائیں گے۔ غالب کے یہاں معنی اور اسلوب دونوں اعتبار سے تنوع، گہرائی اور وسعت ملتی ہے۔ صدر شعبۂ عربی ڈاکٹر سرور عالم نے غالب کی شاعری میں مذہبی وصوفیانہ شاعری کے پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بے ثباتی عالم کو پیش کرنے کے لیے ’’بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے‘‘ سے اچھا شعر نہیں پیش کیا جاسکتا۔ جناب شاہد وصی نے کہا کہ غالب سب کے دلوں کے ترجمان ہیں۔ ان کی شاعری سے ہر شخص اپنی فکر اور صلاحیت کے مطابق معنی ومفہوم اخذ کرسکتا ہے۔ ان کی شاعری معنی کے اعتبار سے مشکل ضرور ہے مگر سمجھ میں آجائے تو نئے جہان سے بھی آشنا کراتی ہے۔
اس موقع پر طلبہ وطالبات نے بھی غالب کی شاعری کی مختلف جہات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ محمد امان نے غالب کی شاعری میں معنوی تنوع پر زور دیا تو محمد ساجد انور نے غالب کو مشکل وآسان دونوں طرح کاشاعر ثابت کیا۔ محمد عظیم اللہ نے غالب کی شاعری میں انا پسندی اور انانیت کی تلاش کی جبکہ شیریں نے غالب کی شاعری کو فلسفہ حیات اور مسائل کائنات کا آئینہ بتایا۔ سمسٹر اول کے طالب علم عتیق الرحمٰن نے غالب کی شاعری میں طنز وظرافت کے نمونے پیش کئے۔ اس موقع پر ڈاکٹر عارف حسین، قمر الزماں اور لاڈلی پروین نے اپنی خوبصورت آوازوں میں غالب کی غزلوں سے سامعین کو محظوظ کیا۔