اسلام میں انسانی خون کا احترام

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 8 th Dec.

 

 

 

 

ڈاکٹر عبید الرحمن ندوی
استاد دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ

دنیا کے مدبّرین کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ ’’اگر کسی قوم کی تہذیب اور ثقافت کا معیار معلوم کرناہوتو جنگ میں دشمن کے ساتھ اس قوم کے سپاہیوں کے طرزِ عمل کا مطالعہ کرنا چاہیے‘‘۔ چنانچہ جب ہم اس کسوٹی پر اسلام اور اس کے متبعین کو کَس کر دیکھتے ہیں ، تو مسلمان سب سے ممتاز، بلند حوصلہ اور فیاض دکھائی دیتے ہیں۔
یوں تو آج مغرب اور مہذب دنیا میں بھی ایک باقاعدہ قانونِ جنگ موجود ہے لیکن یہ اس لیے تشنہ اور غیر منصفانہ ہے ، کہ اس کا دائرہ عمل صرف ’’مہذب‘‘ یعنی یورپین اقوام تک محدود ہے۔ جہاں تک غیر یورپین اور کمزور قوموں کے ساتھ رواداری اور نرمی برتنے کا تعلق ہے سو اس کی کوئی ضرورت ہی نہیں سمجھتے۔ بلکہ اس کے خلاف یہ کمزور قوموں پر انسانیت سوز مظالم کرنا لازمی سمجھتے ہیں۔
اس کے برعکس اسلام کے عقیدۂ عدل وانصاف کی رو سے نہ تو کسی غیر ملکی کو دوسرے پر فوقیت دی جاسکتی ہے اور نہ اپنے فرائض کو ادا کرنے اور نہ کرنے والوں کے مابین کوئی فرق وامتیاز روارکھاجاسکتاہے۔ اور اگرچہ یہ امر تعجب خیز معلوم ہوتاہے لیکن حقیقت یہی ہے اور یہ امر محض نظریہ ہی تک محدود نہیں بلکہ اس پر عمل بھی کیاجاتارہاہے۔ مثال کے طورپر ان لوگوں کے قتل کے معاملے کو لیجیے، جنہیں دشمن کی طرف سے بطور ضمانت مسلمانوں کے سپرد کردیاجاتاہے اور اسلام کے ابتدائی دور میں انہیںقتل کردینے کے واقعات عام ہوگئے تھے۔ اُس زمانے میں بازنطینی سلاطین اور مسلمانوں کے مابین جو معاہدات طے ہواکرتے تھے ان کی تعمیل وتکمیل کی ضمانت کے طورپر فریقین اپنے کچھ لوگوں کو ایک دوسرے کے حوالے کردیاکرتے تھے اور معاہدات میںخصوصیت کے ساتھ یہ شرط شامل کی جاتی تھی کہ اگر بازنطینی سپردکردہ مسلمانوں کو شہید کردیں گے تو مسلمان بھی بطورِ انتقام بازنطینیوں کو ہلاک کردینے کے مجاز ہوں گے۔اس سلسلہ میں تاریخ اسلام کے دوواقعات پیش کردینے کافی ہوں گے ۔ ایک واقعہ امیرمعاویہؓ کے عہد حکومت میں پیش آیاتھا، اورد وسرا خلیفہ منصور کے زمانے میں ۔ اور ان دونوں واقعات کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’اگرچہ بازنطینی سلاطین نے معاہدہ کے خلاف فیصلہ صادرکیا اور یہ فیصلہ اس بناء پر کیاگیا کہ مسلمانوں کے قتل کے ذمہ دار وہ بازنطینی نہیں جو دار الخلافہ میں موجود ہیں ، بلکہ اس فعل کی ذمہ داری بازنطینی سلاطین پر عائد ہوتی ہے۔ اورقرآن اُن بے گناہ بازنطینیوں کو مستوجب سزا قرار نہیں دیتا۔پھر شریعت اسلامی کی رو سے دورانِ جنگ میں عورتوں، بچوں اور اُن لوگوں کا قتل ممنوع ہے جو مقابلہ پر نہیں آتے۔
دین ِاسلام کو بدنام کرنے کی کوششیںزوروشور سے جاری ہیں۔یہاں تک کہ ان کا نظریہ’’تمدن کا ٹکراؤ‘‘ میںبھی دن بہ دن اضافہ ہورہاہے ۔ اسلام کے خلاف الزامات اور اتہامات کی کثرت کے باوجود، اس کے آفاقی پیغام کے ذریعے پورے عالم میں امن وسکون وسیع پیمانے پر محسوس کیاجارہاہے۔
برطانیہ کی حالیہ مردم شماری رپورٹ کے مطابق وہاں مسلمان ۳۹لاکھ ہیں جو آبادی کا ۵،۶فیصد حصہ ہے۔ اس طرح برطانیہ میں اسلام سب سے زیادہ پھیلنے مذہب ہوگیاہے۔
ہم اسلام کا حالیہ منظرنامہ اور اس کی اثرانگیزی برطانوی محقق Rose Kendricکے درج ذیل بیان سے بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں:’’اگلے بیس سالوں میں مذہب تبدیل کرنے والے برطانوی لوگوں کی تعداد ان مسلمان پردیسیوں کے برابر ہوجائے گی یا بڑھ جائے گی جویہاں مذہب اسلام لے کر آئے ہیں۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اسلام کا اصل مقصد بلاامتیاز مذہب وملک اور رنگ ونسل کے بھٹکتی انسانیت کو صراطِ مستقیم کی طرف لے جاناہے اور انہیں برائیوں اور گندگیوں سے پاک کرکے بھلائیوں اور خوبیوں سے آراستہ کرناہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ؐ جب مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو انہوں نے ایک کثیر جہتی معاشرہ کی تشکیل کی جہاں ہرمذہب کے ماننے والے امن وسکون کے ساتھ رہتے تھے۔
یہ بھی عرض کرتاچلوں کہ آپ کی حیات طیبہ میں متعدد جنگیں اور سرایا پیش آئے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تمام معرکوں میں مقتولین کی تعداد ایک ہزار اٹھارہ تھی وہ بھی فریقین کی یعنی مسلمانوں اور کفار کی۔ اسلام پر الزام لگانے والے اور اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے والے اگر صرف اسی تعداد پر غور کریں تو ان کے لیے اسلام کو سمجھنا آسان ہوجائے گا۔ اب ذراسوچیں ان قوموں کی تاریخ پر جو اپنے آپ کو مہذب گردانتے ہیں ۔ یاد رکھیے وہ صرف اپنے لیے مہذب ہیں غیروں کے لیے نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام درحقیقت اسی بنیادی امتیاز کو مٹانے کے لیے آیاتھا۔ اسلام کے نزدیک پوری دنیا ایک کنبہ کے مانند ہے اور آج بھی اسلام اسی مشن پر قائم ہے۔ برطانیہ کی حالیہ مردم شماری رپورٹ اس کی واضح مثال ہے۔
اب ان اقوام کی تاریخ ملاحظہ کریں ۔صرف فرانسیسی انقلاب میں چھبیس لاکھ لوگ مارے گئے۔ روس میں اشتراکی انقلاب میں ایک کروڑ سے زائد لوگوں کی جانیں گئیں۔پہلی عالمی جنگ میں تہتر لاکھ اڑتیس ہزار لوگ مارے گئے۔ اسی طرح دوسری عالمی جنگ میں ایک کروڑ چھہ لاکھ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور اس کی واضح مثال حالیہ روس اور یوکرین کی جنگ ہے۔
مختصراً اسلام انسانی خون کے احترام کا اعلان یوں کرتاہے:’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا۔ اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی‘‘۔ (۵: ۳۲)