!!اللہ تعالیٰ جاہلوںاورغافلوں کو ہدایت نہیں دیتا ہے

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 15 th Dec.

ابونصر فاروق

اللہ کی کتاب قرآن مجید میں یہ بات مکمل وضاحت کے ساتھ لکھی ہوئی ہے کہ زمین پر عقل مند، ہوش مند اور دانشور وہ لوگ ہیں جو کائنات کے عجائبات پر غور و فکر کرتے ہیں، اس کے ذریعہ سے اللہ کی قدرت کاملہ کو سمجھتے ہیںادراللہ کی مکمل بندگی پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔اور اللہ اپنے ایسے ہی بندوں پر اپنے فضل و کرم کی برسات کرتا ہے ، اُن کو دنیا میں باوقار، شاندار اور خوش گوار زندگی گزارنے کا موقع عنایت کرتا ہے،اُنہیں قبر کے عذاب سے محفوظ رکھتا ہے، قیامت کے ہولناک دن کی پریشانیوں سے بچاتا ہے اور جنت الفردوس کا انعام عطا کرتا ہے۔
لیکن جو لوگ انسان ہوتے ہوئے بھی جانوروں کی طرح زندگی کا مقصد صرف عیش و لذت کی زندگی گزارنا بنالیا ہے ، آنکھیں رہتے ہوئے برائی کا انجام دیکھ کر عبرت حاصل نہیں کررہے ہیں،تباہیوں اور بربادیوں کی داستان سن کر بھی غفلت کی نیند میں سوئے ہوئے ہیں اورعقل و سمجھ رکھتے ہوئے بھی جانوروں کی طرح بد عقلی اور ناسمجھی کا شکار بنے ہوئے ہیں ،اُنہیں اللہ دولت، شان و شوکت اوردنیا کی نعمتیں تو عطا کرتا ہے ، لیکن اُن کے دل کا چین،دماغ کا سکون اور زندگی خوشیوں سے محروم کر کے ذہنی اور جسمانی عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔وہ دنیا میں بھی ناکام اور ادھوری زندگی گزارتے ہیں ، مرنے کے بعد عذا ب قبر کے شکار بنتے ہیں، میدان حشر میں اُن کا درد نام انجام دکھائی دے گا اورآخر کار وہ لوگ بھڑکتی ہوئی جہنم کی آ گ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پھینک دیے جائیں گے۔
قرآن کی یہی تعلیمات اور ہدایات بتاتے، سمجھاتے اور سکھاتے ہوئے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی حیات پاک گزر گئی، اسی کام کو قیامت تک کرنے کی اُنہوں نے اپنے صحابہ کو تاکید کی اور آنے والی امت کو یہ تاکید اور تلقین کرتے رہے۔دیار ہند میںجب اللہ والے نیک نفوس تشریف لائے تو اُنہوں نے اپنے حسین اخلاق سے، چاند کی طرح چمکتے ہوئے بے داغ دل کش کردار سے،خیر خواہی کی اپنی عادت سے اورہمدردی، محبت اور خلوص کی چاشنی سے یہاں کے پس ماندہ ، کچلی اورمحروم بنا کر جینے والی آبادی کا دل جیتا اوراُن کو دین حق کی روشنی دے مالا مال کر دیا۔اس ملک کی وہ شیطانی طاقتیں جو نہ تو عدل و انصاف کو پسند کرتی تھیں، نہ پسماندہ محتاج اور مجبور سے کوئی ہمدردی اور محبت رکھتی تھیں،نہ حق کی حمایت کرنے والی تھیں،بلکہ خالق کائنات کے مقابلے میں اپنی خدائی کا ناتواں انسانوں کوقائل کر کے اُن کا استحصال کرنا چاہتی تھیں، وہ ان حق پرستوں کی دشمن بن گئیں۔
جب تک یہ شیطانی طاقتیں کمزور رہیں، چپ چاپ تماشہ دیکھتی رہیں ، لیکن عیسائی قوم کے چلے جانے کے بعد جب اقتدار اُن کے ہاتھ میں آیا تو کچھ دنوں کے بعد اُنہوں نے اپنے پر پانکھ نکالے اوراپنے کالے کرتوتوں کا جال بچھانا شروع کر یا۔ستر(۷۰) سال کے بعد اُن کو اپنے عزائم پورا کرنے کاموقع مل گیااور اُنہوں نے دین اسلام اور اس کے ماننے والوں کے خلاف اپنی مہم میں طوفانی انداز کی تیزی پیدا کر دی۔پھر یہ طوفان صرف اس ملک تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ عالمی سطح پر پھیلنے لگا۔
انتہائی حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک طرف تباہی اور بربادی کا طوفان قیامت برپا کر رہا ہے اور مسلمانوں کے مذہبی اور دیگر رہنماا ور قائدین، اسلام اور کلمہ گو امت سے بے پروا اور غافل اپنی سرداری کی سیاست میں مست و مگن ہیں اور اپنے مفاد کے لئے مسلمانوں کو اتحاد و یک جہتی کا سبق پڑھانے کی جگہ تفرقہ بازی کی بیماری میں مبتلا کر رہے ہیں۔
اُن کے اس سنگین جرم کی سزا اللہ نے اُنہیں یہ دی کہ جدید ہندوستان کا تعلیم یافتہ اورباشعور طبقہ ان نقلی مذہبی رہ نماؤں کو اچھی طرح پہچان گیا اور اُن سے بیزار ہو کر نفرت کرنے لگا۔اور یہ مذہبی رہ نما اپنی دنیا پرستی اور دولت پرستی کی ہوس میں اہل باطل کا مقابلہ کرنے کی جگہ اُن کی غلامی کرنے میں لگ گئے ۔باطل کے دربار میں اعزاز حاصل کرنے کے لئے یہ آپس میں مقابلہ آرائی کرنے لگے۔
وطن عزیز میں اسلام کے نام لینے والوں پر جو ظلم و ستم ہو رہا ہے دنیا اُس سے غافل اور بے پروا ہے،لیکن دنیا کی کلمہ گو برادری نے جب دیکھا کہ شیطانی طاقتوں نے اپنے ملک کے مسلمانوں سے آگے بڑھ کر اُن کے عقیدے اور دین کے خلاف مہم شروع کر دی ہے تب، ہندی مسلمانوں کی ہمدردی میں نہیں بلکہ اپنے دین اور اپنے نبی کی آبرو کی حفاظت کے لئے اُنہوں نے آواز اٹھائی اورشیطانی طاقتوں کو اُن کی حرکتوں کے برے انجام سے ڈرایا۔ا س صورت حال سے گھبرا کر شیطانی طاقتوں نے، جو فطری طور پر اپنے مفاد کی پرستار ہیں، اپنی آواز اور اپنی حرکتوں میں تبدیلی پیدا کی اور حق و انصاف کی زبان بولنے لگیں۔ہندی نادان مسلمان خوش ہوگئے کہ اُن کے دشمنوں کو اب سزا ملنے والی ہے۔ان بد عقلوں کو یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ شیطانی طاقتوں نے ملک سے باہر نکل کر جب عالمی پیمانے پر اپنی شیطانی چالبازیوں کا جال بچھارکھا ہے تویہ مٹھی بھر غیر ملکی مسلمانوں سے کیا ڈریں گے۔ اُنہوں نے وقتی طور پر دنیا والوں کے لئے اپنے کچھ لوگوں کی قربانی دے دی۔اپنے لوگوں کو اپنے مفاد کے لئے قربان کرنا اُن کی وہ حکمت عملی ہے جس کا مظاہرہ آئے دن ہوتا رہتا ہے۔
اللہ کی کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ اللہ کے بندوں کے دشمن اپنی چالیں چل رہے ہیں اور اللہ اپنی چال چل رہا ہے۔اور اللہ کی چال بڑی زبردست ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نیک اور صالح بندوں کانگہبان اور رکھوالا ہے۔اُس کے خاص بندوں پرشیطان کا بھی بس نہیں چلتاہے۔
یہ اسلام دشمن خبیث اُن کا کیا بگاڑیں گے ؟ غور طلب امر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اسلام دشمنوں کے خلاف کارروائی کرے گا تو معاملہ صرف شیطانی طاقتوں اور ظالموںتک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ ،اُن پر بھی اس کا اثر ہوگا جو اپنے آپ کو مظلوم سمجھ رہے ہیں۔ رب کائنات کی نظر میں وہ نافرمان، باغی اور غدار ہیں۔مسلمان ہو کر بھی سچے اور پکے مسلمان نہیں ہیں۔اس عذا ب اور آفت سے بچنے کا صرف ایک ہی علاج ہے کہ ہر آدمی تمام برائیوں سے توبہ کر کے اللہ کی اطاعت اور فرماں برداری میں لگ جائے۔بیماری اللہ کے حکم کے بغیر آنہیں سکتی اور اُس کے فرمان کے بغیر جا بھی نہیں سکتی ہے۔
خرابی کی انتہا یہ ہے کہ ہر آدمی دعا کی بات کر رہا ہے۔لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ اللہ اور اس کے نبی ﷺ نے بتا دیا ہے کہ کب اور کیوں انسان کی دعائیں قبول نہیں ہوتی ہیں۔لو گ ایسی تمام برائیوں میں مبتلا اور ملوث ہیں جن کے سبب دعائیں قبول نہیں ہوتی ہیں۔ وہ ان سے بچنا اور توبہ کر کے اللہ سے معافی مانگنا نہیں چاہتے ہیں، صرف دعا کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور شکایت کر رہے ہیں کہ اُن کی دعائیں قبول نہیں ہو رہی ہیں۔اللہ کو بے پروا اور غافل سمجھ کر اُس کی قدرت کا انکار کر رہے ہیں اور اپنے آپ کو کافر اور منکر کے زمرے میں شامل کر کے جہنم کا حقدار بنا رہے ہیں۔قرآن او ر حدیث کی روشنی میں ان برائیوں کا بیان کیا جارہا ے جن کے سبب دعائیں قبول نہیں ہوتی ہیں:
اے نبی! جب یہ منافقین تمہارے پاس آتے ہیںتو کہتے ہیں، ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ بیشک اللہ کے رسول ہیں۔ہاں اللہ جانتا ہے کہ تم ضرور اُس کے رسول ہو، مگر اللہ گواہی دیتا ہ کہ یہ منافقین جھوٹے ہیں۔(منافقون:۱)اے نبی! تم چاہے ان کے لئے مغفرت کی دعا کرو یا نہ کرو، ان کے لئے یکساں ہے، اللہ ہر گز انہیں معاف نہیں کرے گا۔(منافقون:۶)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ صرف پاکیزہ مال کو ہی قبول کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہی حکم دیا ہے، جس کا اس نے رسولوں کو حکم دیا ہے۔چنانچہ اس نے فرمایا: اے پیغمبرو! پاکیزہ روزی کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ اور مومنوں کو خطاب کرتے ہوئے اس نے کہا کہ اے اہل ایمان جو پاک اور حلال چیزیں ہم نے تم کو بخشی ہیں وہ کھاؤ۔پھر ایک ایسے آدمی کا حضور ﷺ نے ذکر کیا جو لمبی دوری طے کر کے مقدس مقام(خانہ کعبہ) پر آتا ہے، غبار سے اٹا ہوا ہے، گرد آلود ہے اور اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کرکہتا ہے اے میرے رب! اے میرے رب!(اور دعائیں مانگتا ہے) حالانکہ اس کا کھانا حرام ہے ، اس کا پانی حرام ہے، اس کا لباس حرام ہے اور حرام پر ہی وہ پلا ہے تو ایسے شخص کی دعا کیوں کر قبول ہوسکتی ہے۔( مسلم )
حضرت ابو امامہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہﷺسے دریافت کیا یا رسول اللہ ! والدین کا اپنی اولاد پر کیا حق ہے ؟ حضورﷺنے فرمایا وہی تمہاری جنت اور جہنم ہیں ۔(ابن ماجہ)
حضرت ام سلمہؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا :جو عورت اس حال میں فوت ہوئی کہ اس کا شوہر اس سے راضی اور خوش تھا تو وہ جنت میں داخل ہو گئی۔(ترمذی)
رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جو آدمی اس کو پسند کرتا ہے کہ اس کا رزق بڑھایا جائے اور اس کی عمر زیادہ کی جائے تو وہ اپنے رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرے۔(مسلم)
حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں : رسول اللہﷺ نے فرمایا خدا کی قسم وہ مومن نہیں خدا کی قسم وہ مومن نہیں خدا کی قسم وہ مومن نہیں پوچھا گیا کون یا رسول اللہ ؟ آپ نے فرمایا وہ جس کی شرارتوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو ۔(بخاری و مسلم )
حضرت سعید بن زیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جس کسی نے ظالمانہ طور پر بالشت بھر زمین لی تو قیامت کے دن سات زمینوں کا طوق اس کے گلے میں پہنایا جائے گا۔(بخاری مسلم)
عبداللہ ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:شہید کے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے سوائے قرض کے۔(مسلم)
حضرت ابن عمرؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:ظلم قیامت کے روز اندھیرا بن کر سامنے آئے گا۔(بخاری/مسلم) حضرت اوس بن شرحبیلؓ روایت کرتے ہیں انہوں نے رسو ل اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے ظالم کا ساتھ دیا ، یہ جانتے ہوئے کہ وہ ظالم ہے ، تو وہ اسلام سے نکل گیا ۔ (بیہقی)
عبداللہ ابن مسعودؓ روایت کرتے ہیں ،رسول اللہﷺ نے فرمایا:جس آدمی کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگاوہ جنت میں نہیں جا سکے گا۔ ایک آدمی نے پوچھا کوئی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اور جوتے اچھے ہوں تو کیا یہ بھی تکبر ہے؟رسول اللہﷺ نے فرمایا:یہ تکبر نہیں ہے۔ اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔تکبر کا مطلب ہے اللہ کا حق ادا نہ کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا۔(مسلم)
رسول اللہ ﷺنے ناپ اور تول والے تاجروں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:تم لوگ دو ایسے کاموں کے ذمہ دار بنائے گئے ہو جن کی وجہ سے تم سے پہلے گزری ہوئی قومیں ہلاک ہو گئیں۔(ترمذی)حضرت رفاعہؓ کہتے ہیں ،رسول اللہ ﷺنے فرمایا:تاجر لوگ قیامت کے دن بدکار کی حیثیت سے اٹھائے جائیں گے، سوائے ان تاجروں کے جنہوں نے اپنی تجارت میںتقویٰ اختیار کیا اور نیکی اور سچائی کا رویہ اپنایا۔(ترمذی) حضرت ابی سعید ؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہﷺنے فرمایا :امانت دار اور سچا تاجرقیامت کے دن نبیوں،صدیقین اورشہداء کے ساتھ ہوگا۔(ترمذی)
خریم بن فاتک ؓ روایت کرتے ہیں ،رسول اللہﷺنے صبح کی نماز پڑھائی سلام پھیرنے کے بعد آپﷺسیدھے کھڑے ہو گئے اور فرمایا:جھوٹی گواہی دینا اورشرک کرنا دونوں برابر ہیں۔ یہ جملہ آپﷺنے تین بار دہرایا۔پھرنبیﷺنے آیتفاجتنبوا (تم گندگی سے یعنی بتوں سے دور رہو اور جھوٹی بات کہنے سے ، خداکے لیے یکسو ہو جاؤ اور شرک چھوڑ کر توحید اختیار کرو)آخر تک تلاوت کی۔(ابوداؤد)
حضرت حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چغل خور جنت میں نہیں جائے گا۔(بخاری، مسلم)
حضرت ابو ہریرہؓروایت کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺنے فرمایا:حسد سے بچو،اس لیے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح بھسم کر ڈالتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔ (ابوداؤد)
حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہﷺنے فرمایا: مسلم کو گالی دینا فسق ہے اور اُس کا قتل کرنا کفر ہے ۔ (بخاری، مسلم)
اور کوئی جگری دوست اپنے جگری دوست کو نہ پوچھے گا۔(۱۰) حالانکہ وہ ایک دوسرے کو دکھائے جائیں گے۔ مجرم چاہے گا کہ اُس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنی اولا دکو۔(۱۱)اپنی بیوی کو، اپنے بھائی کو۔(۱۲) اپنے قریب ترین خاندان کو ، جو اُسے پناہ دینے والا تھا۔(۱۳)اور روئے زمین کے سب لوگوں فدیہ میں دے دے اوریہ تدبیر اُسے نجات دلا دے۔ (۱۴)ہرگز نہیں وہ تو بھڑکتی ہوئی آگ کی لپٹ ہوگی۔(۱۵) جو گوشت پوست کو چاٹ جائے گی۔(۱۶)پکار پکار کر اپنی طرف بلائے گی ہر اُس شخص کو جس نے حق سے منہ موڑا اور پیٹھ پھیری۔(۱۷)اورمال جمع کیا اور سینت سینت کر رکھا۔ المعارج:۱۸)آخر کار جب وہ کان بہرے کر دینے والی آوازبلند ہوگی۔(۳۳)اُس روز آدمی اپنے بھائی سے۔ (۳۴) اپنی ماں سے اور اپنے باپ سے۔(۳۵)اور اپنی بیوی سے اور اپنے بیٹے سے بھاگے گا۔(۳۶)اُن میں سے ہر شخص پر اُس دن ایسا وقت آ پڑ ے گا کہ اُسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہوگا۔(عبس:۱۰ تا ۳۷)
کیااس دور کے مسلمان جو نبی ﷺ سے محبت کا جھوٹا دعویٰ کرنے میں ماہر بن چکے ہیں،قرآن اوررسول ﷺ کی ان باتوں کو مانیں گے اور ان پر عمل کریں گے ؟ اس کے آثار تو دکھائی نہیں دیتے ہیں۔اور مسئلہ سنگین اس لئے بھی ہو گیا ہے کہ جو لوگ مذہب کی تبلیغ میں لگے ہوئے ہیں اوردین و ایمان کی باتیں کر رہے ہیں،جو لوگ جلسے اوراجتماعات کرنے میں مصروف ہیں ، وہ کبھی عام مسلمانوں کو ایسی باتیں سننے اوران پر عمل کرنے کی اجازت دیں گے ؟ وہ تو بس دعا درود میں ہی امت کو الجھائے رہیں گے!!!
رابطہ:8298104514