امارات کا اسرائیل سے یہودی آباد کاری ختم کرنے اور دو ریاستی حل اپنانے کا مطالبہ

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 20th Dec.

ابوظہبی ،20دسمبر: سلامتی کونسل کے اجلاس میں متحدہ عرب امارات نے مسئلہ فلسطین پر یکطرفہ اقدامات سے گریز کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور اسرائیل سے مقبوضہ فلسطینی سرزمین میں آباد کاری کی تمام سرگرمیاں روکنے، تشدد کو کم کرنے، امن عمل کو بحال کرنے اور دو ریاستی حل کو لازم پکڑنے کا مطالبہ کیا ہے۔امارات کے مستقل مندوب کے نائب اور قائم مقام ناظم الامور محمد ابو شہاب کے ذریعہ سلامتی کونسل میں پیش کئے گئے اپنیبیان میں امارات نے مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل کی جانب سے آباد کاری روکنے کے مطالبے کی تجدید کی اور کہا کہ یہ آباد کاری بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور امن کو نقصان پہنچاتی ہے۔ امارت نے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو یہودی آباد کاری کے نئے اعلان کردہ منصوبوں سے پیچھے ہٹ جانا چاہیے۔ متحدہ عرب امارات نے فلسطینی زمینوں کو ضم کرنے یا اسے قانونی بنانے کے لیے کسی بھی اقدام کو بھی مسترد کردیا اور خبردار کیا کہ اس طرح کے طرز عمل سے دو ریاستی حل کے مستقبل کے متعلق بہت سے خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔ امارات نے اشتعال انگیز بیان بازی سے دور رہنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ تشدد کو کم کرنے کے اقدامات کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے۔ خاص طور پر یہودی آباد کاروں کی پرتشدد کارروائیوں کا خاتمہ کیا جائے، مسماری اور بے دخلی کی کارروائیوں نے اس سال 700 سے زیادہ فلسطینی عمارتوں کو متاثر کیا۔ امارات نے کہا ایسے غیر قانونی اقدامات غصے اور مایوسی کے جذبات کو ہوا دیتے ہیں اور ان سے تصادم بڑھتا ہے۔سلامتی کونسل کو دیے گئے بیان میں متحدہ عرب امارات نے اسرائیل سے بین الاقوامی قانون اور متعلقہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کا مطالبہ کیا۔ بیان میں مشرق وسطیٰ میں امن کے عمل کو بحال کرنے کے لیے دستیاب آپشنز پر تبادلہ خیال کرنے کا مطالبہ کیا گیا اور کہا گیا کہ ان مذاکرات کو کثیر جہتی حمایت کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر سلامتی کونسل اور تنازع کو حل کرنے کیلئے ہمیشہ ثالثی کی کوششوں کی قیادت کرنے والے ملکوں کے تعاون کی بھی ضرورت ہے۔بیان میں کہا گیا کہ القدس الشریف اور مقدس مقامات کی قانونی حیثیت کو متاثر کرنے والے یکطرفہ اقدامات بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہیں۔ ان اقدامات سے کشیدگی میں اضافے کا خطرہ ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ مشرقی القدس میں درجنوں خاندانوں کو زبردستی نقل مکانی پر مجبور کیا گیا، مشرقی القدس میں یہودی بستیوں کی توسیع بھی مسلسل جاری ہے۔ القدس میں مقدس مقامات اور اوقاف کی دیکھ بھال میں اردن کی ہاشمی سلطنت کے کردار کو احترام دینے کی بھی ضرورت ہے۔