داعش کے 4ہزار سے زیادہ جنگجوں افغانستان میں سرگرم

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 6 th Dec.

واشنگٹن،5دسمبر: امریکہ نے کہا کہ طالبان حکومت کو داعش کے خلاف مقابلہ کرنے کی اتنی صلاحیت نہیں ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق سیکورٹی امور کے ماہرین اس بات پر اتفاق کررہے ہیں کہ طالبا ن حکومت بغیر کسی بیرونی کے مددکے اپنے بل بوتے پر داعش سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حال ہی میں داعش نے دعوی کیا کہ ان کے جنگجوں نے پاکستانی سفارتخانہ کو نشانہ بنا یا ۔ ناظم المور عبیدالرحمان نظامنی کو ہلاک کرنے کی کوشش کی جب نامعلوم بندو ق بردار نے ان پر گولیاں برسائیں۔ وہ اپنے احاطے میں چہل قدمی کررہے تھے لیکن ان کے سیکورٹی اہلکار نے گولیاں اپنے سینے پر لے لی ۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ داعش سے بھی سب بڑا خطرہ دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ خراساں ہیں جو کہ طالبان کے پرانے مخالف ہے۔ 2015میں داعش نے افغانستان میں اپنے قدم جمانے شروع کئے اور وہ ہمیشہ طالبان کی مخالفت کرتے تھے۔ داعش خراسان طالبان اپنے آپ کو قوم پرست تنظیم قراردیتی ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد داعش کے 4ہزار جنگجوں افغانستان میں موجود ہیں اور افغانستان میں بڑے حملوں کی ذمہ داری لی ہے۔ اس جائزے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دہشت گردانہ سرگرمیو ںکی وجہ سے افغانستان کے پڑوسی ملک بھی اثرانداز ہورہے ہیں افغانستان پاکستان کا سب سے اہم پڑوسی ملک ہے جب طالبان اقتدار میں آئے تو اس وقت یہ تاثر لگ رہا تھا کہ طالبان پاکستان کے ساتھ قریبی اور مستحکم تعلقات قائم کریں گے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کو نئے سیکورٹی چینلج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رپورٹ میں خبر دار کیا گیا ہے کہ طالبان کی فتح پاکستان میں دہشت گرد گروپوں بشمول کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جو کہ امریکا کی جانب سے غیر ملکی دہشت گرد قرار دی گئی تنظیم ہے کے حوصلے کو بلند کرنے اور ممکنہ طور پر ان کے لیے مادی فوائد میں اضافے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اگست 2021 کے بعد پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے خلاف کالعدم ٹی ٹی پی کے حملوں میں اضافہ ہوا جس کے بعد مبینہ طور پر پاکستانی حکومت نے افغان طالبان کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی جس کے بعد ہونے والا جنگ بندی کا معاہدہ 2022 کے آخر میں ختم کردیا گیا۔کانگریشنل ریسرچ سروس میں نوٹ کیا گیا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کی صورتحال پاکستان میں موجود 10 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی موجودگی کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کی مشترکہ طویل سرحد پر دیرینہ تنازع کی وجہ سے بہت پیچیدہ ہے جب کہ اس کی وجہ سے طالبان اور پاکستانی افواج کے درمیان2022 میں مختلف مواقع پر جھڑپیں ہوچکی ہیں۔