سرسی کو نیاضلع تشکیل دینے کے متعلق اسپیکر کاگیری کا بیان: بی جےپی تذبذب کا شکار

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 9 th Dec.

سرسی، 09 دسمبر :شمالیکنڑا ضلع کو تقسیم کرتے ہوئے سرسی کو علاحدہ ضلع تشکیل دئیے جانے کے متعلق ودھان سبھا اسپیکر وشویشور ہیگڈے کاگیر ی کے بیان کو لیکر ضلع بی جیپی میں موافق و مخالف آوازیں اٹھ ری ہیں۔ ساحلی پٹی کے دو ارکان اسمبلی نے سرسی ضلع کی تشکیل کو لیکر بالکل مختلف بیان دیاہے۔ودھان سبھا انتخابات کے لئے صرف چند ماہ باقی رہ گئے ہیں، ایسے وقت بااثر لیڈروں میں سے ایک کاگیری کے ذریعے ضلع کی تقسیم کی باتیں سامنے آنے سے بی جیپی کو نہ نگلے بنے نہ اگلنے بنے کی صورت حال کا سامنا ہے۔ گذشتہ کئی برسوں سے ضلع کی تقسیم کی باتیں چل رہی تھیں لیکن وہ صرف گلی محلے کی حد تک محدود تھیں۔ پچھلے ایک دوبرسوں میں سرسی میں ہونے والے احتجاج کے سوا کوئی بڑا احتجاج، زوردار مطالبہ سرکاری سطح پر نہیں ہواتھا۔عوام کہہ رہے ہیں کہ ودھان سبھا انتخابات قریب ہیں اپنی 7ویں جیت کو یقینی بنانے کیلئے کاگیری نے ضلع کی تقسیم کا ہتھیار استعمال کیا ہے۔ فی الحال وہ ودھان سبھا اسپیکرجو کسی پارٹی کی طرفدار ی نہ کرتیہوئے غیر جانبدارانہ عہدے پر فائز ہیں لیکن اگلے چند ماہ بعد انہیں سرسی ودھان سبھا حلقہ سے بی جیپی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑنا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ انہوں نے اپنی جیت کو آسان بنانے کیلئے نئے ضلع کی تشکیل کا پتہ پھینکا ہے۔اترکنڑا ضلع کی ساحلی پٹی پر واقع تینوں ودھان سبھاحلقوں میں بی جیپی کے ارکان اسمبلی ہیں،ضلع میں یہ بحث بھی جاری ہیکہ کاگیری نے نئے ضلع کی تشکیل کابیان دینے سے پہلے ساحلی پٹی کے ارکان اسمبلی کے ساتھ بات چیت کی ہے یا نہیں ۔ کیونکہ ضلع کی تقسیم کے متعلق ایک قد آور لیڈر بیان دیتاہے تو ظاہر ہے بی جیپی کے ارکان اسمبلی تذبذب کا شکار ہونگے۔ اگر اسپیکر کے بیان کی وہ مخالفت کرتے ہیں تو عوام کو جواب دینا مشکل ہوجائے گااور عوامی غصہ کو ٹھنڈا کرنا بھی ان کے لئے ممکن نہیں ہوگا۔ مجموعی طورپر اسپیکر کاگیری کا بیان ارکان اسمبلی کیلئے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔ایک زمانے میں اترکنڑا ضلع کانگریس کا مضبوط قلعہ تھا اب پچھلے چند برسوں سے بی جے پی کی گود میں ہے۔ ہلیال کے سوا بقیہ پانچوں حلقوں میں بی جیپی کے ارکان اسمبلی ہیں۔ بی جیپی لیڈران کو خدشہ ہے کہ اگر ضلع کی تقسیم ہوتی ہے تو بی جے پی کیلئے نقصان ہوگا۔ نئے ضلع کے لئے سرسی اور سداپور کے علاقوں میں زوردار مطالبہ دیکھا گیا ہے لیکن گھاٹ کے اوپر والے دوسرے تعلقہ جات میں اتنی آواز نہیں اٹھی ہے۔ اسی حساب کیچلتے چند لیڈران کا کہنا ہیکہ ضلع تقسیم ہوا تو بی جے پی کو نقصان ہوسکتاہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ابھی تک بی جیپی میں ہی ضلع کی تقسیم کو لیکر کوئی متفقہ رائے نہیں پائی جاتی۔گھاٹ کے اوپر والے تعلقہ جات میں پچھلے کئی برسوں سے سرسی کو ضلع بنانے کی آوازیں لگائی جارہی ہیں لیکن عین انتخابات کے موقع پر کاگیری کا ضلع کو تقسیم کرتے ہوئے سرسی کو نیا ضلع بنائے جانے کے متعلق بیان دینے سے سیاسی فائدے و نقصان کی بات شروع ہوگئی ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بی جیپی لیڈران اور کارکنان کے درمیان یہ بحث بھی شروع ہوگئی ہے کہ انتخابات کے موقع پر ایسے متنازعہ بیان کی کیا ضرورت تھی۔ اترکنڑاضلع کی تقسیم کو لے کر بھٹکل رکن اسمبلی سنیل نائک کا کہنا ہے کہ ضلع کی تقسیم ضروری نہیں ہے، ضلع کیلئے سب سے زیادہ ضروری ایک سوپر اسپیشلٹی اسپتال ہے۔ انہوں نے کہا کہ لیڈران کو ضلع کی ترقی کے متعلق بیان دینا چاہئے۔ مکمل ضلع کی پسند جتاتے ہوئے بھٹکل کے رکن اسمبلی سنیل نائک نے بالواسطہ طورپر کاگیری کے بیان کی مخالفت کی ہے۔ کاگیری کے بیان کو لیکرکمٹہ کے رکن اسمبلی دینکر شٹی نے کہا ہے کہ ضلع تقسیم ہوتاہے تو ترقیاتی کام زیادہ ہوتیہیں۔ میں اس کی مخالفت نہیں کروں گا۔ ضلع تقسیم ہوکر دو ضلع تشکیل پاتے ہیں تو سرکاری امداد بھی دگنی ہوگی اور سہولیات بھی زیادہ ملیں گی۔