طالبا ن نے قتل میں ملوث شخص کو سرائے عام پھانسی پر لٹکایا

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 8 th Dec.

کابل،8دسمبر: افغان طالبان نے تصدیق کی ہے کہ ایک افغان شہری کو قتل کا جرم ثابت ہونے کے بعد سر عام سزائے موت دے دی گئی ہے۔گزشتہ ماہ طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ نے ججوں کو حکم دیا تھا کہ وہ شرعی قوانین کو مکمل طور پر نافذ کریں جن میں سرعام پھانسی، سنگسار، کوڑے مارنا اور چوروں کے ہاتھ کاٹنا شامل ہیں۔اس کے بعد سے کئی مجرمان کو سرعام کوڑے مارے جاچکے ہیں لیکن گزشتہ روز صوبے فرح کے دارالحکومت میں سرعام دی جانے والی یہ پہلی سزائے موت ہے جس کا طالبان نے اعتراف کیا ہے۔ترجمان افغان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں ’آنکھ کے بدلے آنکھ‘ جیسے قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’سپریم کورٹ کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ شہریوں کے سامنے عوامی سطح پر قصاص جیسے حکم کا اطلاق کریں‘۔حکام کی جانب سے جاری بیان میں سزائے موت پانے والے شخص کا نام تاج میر ولد غلام سرور بتایا گیا ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ صوبہ ہرات کے ضلع انجیل کا رہائشی تھا، اس پر ایک شخص کو قتل اور اس کی موٹر سائیکل اور موبائل فون چوری کرنے کا الزام تھا، متوفی کے ورثا نے اسے پہچان لیا تھا اور اس نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کر لیا۔ذبیح اللہ مجاہد نے ایک ٹوئٹ میں واضح کیا کہ ملزم کو سزائے موت مقتول کے والد نے دی جنہوں نے اس شخص کو 3 گولیاں ماریں۔خیال رہے کہ افغانستان میں اپنے گزشتہ دورِ اقتدار کے دوران طالبان کی جانب سے باقاعدہ طور پر عوامی سطح پر سزائیں دی جاتی تھیں، کابل کے نیشنل اسٹیڈیم میں کوڑے اور پھانسیاں بھی دی جاتی تھیں جہاں مقامی شہریوں کی شرکت کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی تھی۔اس بار افغان طالبان کی جانب سے معتدل طرز حکمرانی کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن افغان عوام کی زندگیوں پر تیزی سے سخت پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ سپریم لیڈر کی جانب سے گزشتہ روز دی جانے والی سرعام سزائے موت کے حکم سے قبل متعدد عدالتوں نے اس کیس کی اچھی طرح سے جانچ پڑتال کی تھی۔انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ’اس معاملے کی بہت موئثر طریقے سے جانچ کی گئی جس کے بعد بالاخر قاتل پر شرعی قانون لاگو کرنے کا حکم دیا گیا۔