ماضی میں پاسداران انقلاب کے ناقد احمدی نژاد نے اب کیوں خاموش ہیں؟

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 31st Dec.

تہران،31دسمبر:سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے حالیہ برسوں میں حکومت اور ایرانی پاسداران انقلاب کو تنقید کا نشانہ بنانے کے لیے سخت ترین الفاظ استعمال کئے ہیں حتی کہ ایک مرتبہ انہوں نے پاسداران انقلاب کو ’’اسمگلنگ برادرز‘‘ کے طور پر بیان کیا جس سے اس کے حکومت کنٹرول سے الگ ہوکر درآمدات اور برآمدات میں ملوث ہونے کی طرف اشارہ تھا۔ایسی واضح تنقید کے بعد حالیہ احتجاجی تحریک میں پاسداران انقلاب کی کارروائیوں پر انہوں نے اچانک خاموشی اختیار کر لی ہے۔ انہوں نے ملک میں چوتھے مہینے سے جاری مظاہروں کو مسترد کرنے یا ان کی حمایت کرنے سے متعلق بھی کوئی بیان نہیں دیا۔اس صورتحال نے “انصاف نیوز” ویب سائٹ کو ایسے تمام لوگوں کی خاموشی کی وجوہات تلاش کرنے پر آمادہ کیا جو اس سے قبل تمام ملکی مسائل پر اپنے موقف کا اعلان کر رہے تھے اور انتہا پسندانہ مؤقف کا اظہار کر رہے تھے۔اسی تناظر میں بنیاد پرست شخصیات میں سے ایک عباس امیری فر پہلے احمدی نڑاد کے قریب تھے اور بعد میں ان سے منحرف ہو گئے تھے سے بات چیت کی گئی۔امیری فر کہتے ہیں کہ میں نے کئی سالوں سے احمدی نڑاد کے ساتھ بات چیت نہیں کی ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ جب وہ اس پر نظر بندی کی توقع رکھتے تھے اور اس کے انتظار میں تھے کہ وہ نظام کے مفاد کی تشخیصی کونسل کی نشست حاصل کریں تو انہوں نے سیاسی قوتوں سے بات کی کے وہ کسی بھی طرح بغاوت سے متعلق کوئی پوزیشن نہ لیں۔ حکومت کے حق نہ ہی مخالفت میں کوئی بھی پوزیشن نہ لی جائے۔میری رائے میں احمدینژاد سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے اگلے صدارتی اجلاس میں یا اس سے پہلے پارلیمانی انتخابات کے لیے الیکشن میں آنا مناسب ہے۔جب’انصاف نیوز‘ نے ان سے پوچھاکیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے یہ موقف اس لیے لیا کہ وہ خارج نہ ہوں اور ایکسپیڈینسی کونسل میں اپنی موجودہ پوزیشن سے محروم نہ ہوں؟” انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہاں، درحقیقت یہ ان کی پالیسی ہے۔ وہ نظام اور رہنما پر بالکل یقین نہیں رکھتے۔ ان کے پاس انتخابات کے لیے ایک منصوبہ ہے۔ پارلیمانی انتخابات کے لیے ان کے پاس خاموش منصوبہ ہے۔ وہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ ایوان صدر میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ احمدی نڑاد سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت ناکام ہو جائے گی۔احمدی نڑاد کی طرف سے مظاہرین کی حمایت کا اعلان کرنے کی صورت میں عباس امیر نے کہا کہ مظاہرین کی حمایت کر کے بھی احمدی نڑاد ان کی حمایت حاصل نہیں کر سکتے۔ مظاہرین ان پر حملہ کریں گے۔ احمدین نژاد موجودہ حالات میں مجرموں میں سے ہیں۔ احمدی نڑاد کی ٹیم اگر مظاہرین کی حمایت کرے گی تو ان کی گرفتاری اور ان کے دفاتر پر حملوں میں آسانی ہو جائے گی۔اس انٹرویو میں ’’عامری فر‘‘ نے احتجاج پر اصلاح پسند تحریک کے موقف کا حوالہ دیا اور اس تحریک کو “فسادی” سے تعبیر کیا، انھوں نے کہا: “حکومت پر ان کی بہت سی تنقیدوں کے باوجود اصلاح پسندوں نے بھی اس کے خلاف موقف اختیار کیا۔مظاہرین کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ اس حوالے سے عباس امیری فہر نے احمدی نڑاد کی ٹیم کے حوالے سے بتایا کہ احمدی نڑاد مظاہروں کے خاتمے کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنے عہدوں کا اعلان کریں اور اسی احتجاجی لہر پر سوار ہوکر اپنی تحریک بڑھائیں۔ چونکہ پارلیمانی انتخابات قریب ہیں اس لیے ہر کوئی مظاہرین کے کچھ حصے کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے بولے گا یا تنقید کرے گا۔ مجھے یقین ہے کہ احمدی نڑاد اور ان کی ٹیم فسادات کے خاتمے کے ساتھ باہر نکلنے کا راستہ تلاش کر رہی ہے۔انہوں نے مزید کہااحمدینژاد کی ٹیم کی اجتماعی رائے یہ ہے کہ لوگ اب اصلاح پسندوں یا بنیاد پرستوں کی طرف رجحان نہیں رکھتے، بلکہ وہ تیسری لائن کی تلاش میں ہیں اور ہم تیسری لائن ہیں، اس لیے لوگ ہماری طرف جھکیں گے۔عباس امیری نے آخر میں کہا احمدی نڑاد کسی کی نہیں سنیں گے، وہ صرف اپنے مفادات کے لیے خاموش ہیں ورنہ وہ مٹا دیے جائیں گے اور ہمیشہ کے لیے ختم بھی کر دیے جائیں گے۔ اس لیے انھوں نے اپنے آپ سے کہا کہ وہ خاموش رہیں تاکہ اس معمولی امید کو برقرار رکھا جا سکے۔اسی تناظر میں ویب سائٹ ’’دی مانیٹر‘‘ نے احمدی نڑاد کے مؤقف پر روشنی ڈالی اور لکھا: 16 ستمبر کو ایران میں داخلی مظاہروں کے آغاز کے بعد سے سابق صدر محمود احمدی نڑاد کی خاموشی بہت دلچسپ ہے۔ 2013 میں اپنی مدت ختم ہونے کے بعد احمدی نڑاد نے محتاط انداز میں قدم اٹھاتے ہوئے کہا اپنے لئے ایک نئی عوامی تصویر پینٹ کرنے کی کوشش کی ہے اس کے لئے انہوں نے لبرل پالیسی، مفاہمت پر مبنی خارجہ پالیسی اور خواتین کے حقوق کے بارے میں روادارانہ خیالات کو اپنانا شروع کیا ہے۔انسٹی ٹیوٹ فار نیو لائنز فار پالیسیز اینڈ سٹریٹیجیز میں تجزیاتی ترقی کے ڈائریکٹر کامران بخاری نے بتایا کہ احمدی نڑاد اعتدال پسندی کی چادر اوڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ساتھ ہی انہیں احساس ہے کہ وہ حکومت کے خلاف بغاوت نہیں کر سکتے۔