نربھیا کیس کے بعد پولیس کی تفتیش کے طریقہ کار میں تبدیلی آئی لیکن پھر بھی جرائم کم نہیں ہوئے

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 16 th Dec.

نئی دہلی،16دسمبر:آج ’نربھیا ڈے‘ ہے۔ 10 سال گزر گئے۔ اس دن نربھیا بس میں سفر کرنے والے درندوں کا نشانہ بن گئی۔ پوری دنیا میں ردعمل سامنے آیا۔ یہ وہ کیس تھا جس نے نہ صرف پولیس کی تفتیش کے طریقے بدلے بلکہ فرانزک شواہد کو بھی اس طرح استعمال کیا کہ مجرموں کو پھانسی کے پھندے تک پہنچانے میں ایک مثال بن گئی۔ ان میں سب سے بڑا ثبوت ’فارنسک ڈینٹسٹری‘ تھا، جسے ہندوستان میں پہلی بار نربھیا اجتماعی عصمت دری کیس میں استعمال کیا گیا تھا۔ یہ ایک ایسی سائنس تھی جس کا ذکر پہلے ہندوستانی فرانزک سائنس میں بھی نہیں تھا۔ یہی نہیں، نربھیا کیس دنیا کا پہلا ایسا کیس تھا، جس میں الفاظ کے بجائے اشاروں سے 164 کے بیانات درج کیے گئے تھے۔درحقیقت دانتوں کے ذریعے انسان کی شناخت کے فن کو فرانزک ڈینٹسٹری کہا جاتا ہے۔ کیونکہ نربھیا کے جسم پر کاٹنے کے بہت سے نشانات تھے، جنہیں مجرموں کے خلاف ایک اہم ثبوت بنایا جا سکتا تھا۔ منفرد ثبوت کے لیے نربھیا کے جسم پر موجود دانتوں کے نشانات کی تصاویر اور گرفتار ملزمین کے دانتوں کے نشانات کو دھارواڑ، کرناٹک بھیج دیا گیا۔ جانچ کے لیے پلاسٹر آف پیرس سے دانتوں کی کاسٹ بنائی گئی۔ دانتوں کے نشانات کے سامنے پیمانہ رکھ کر دانتوں کی کلوز اپ تصویر لی گئی۔ ملزم کے دانتوں کے نشانات کے ساتھ میچ کیا گیا۔پولیس اور سرکاری ادارے حرکت میں آگئے۔ بہت سے قوانین بنائے گئے لیکن عصمت دری جیسے گھناؤنے جرائم کے معاملات میں کوئی خاص فرق نہیں آیا۔ مجرموں کے ذہنوں میں قانون کا خوف نہیں۔ این سی آر بی کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال دہلی میں ہر روز دو نابالغ لڑکیوں کی عصمت دری کی گئی۔ اعداد و شمار کے مطابق دہلی پورے ملک میں خواتین کے لیے سب سے زیادہ غیر محفوظ شہر تھا۔ 2021 میں خواتین کے خلاف جرائم کے 13,892 مقدمات درج کیے گئے، جبکہ 2020 میں یہ تعداد 9,782 تھی۔ اگر ہم پورے ملک کی بات کریں تو ایک دن میں اوسطاً 87 ریپ کے واقعات ہوتے ہیں۔