Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 14th Jan.
چین کے ساتھ تنازعہ ہو یا یوکرین کی جنگ، دنیا بھارت اور روس کی دوستی کی مثالیں دیتی رہی ہے۔ اب یہ دوستی مزید مضبوط ہونے جا رہی ہے۔ ایران بھارت اور روس کے درمیان لائف لائن بنا رہا ہے۔ اس کے تحت 3,300 کلومیٹر لمبی ریلوے لائن اور 6,000 کلومیٹر طویل ہائی وے پر کام تیزی سے جاری ہے۔ روس سے بھارت کے راستے ایران تک تجارتی راستہ تیار ہونے کے بعد یہ تینوں ممالک امریکی پابندیوں سے بچتے ہوئے باآسانی ایک دوسرے کے ساتھ کاروبار کر سکیں گے۔بین الاقوامی امور پر نظر رکھنے والوں کا ماننا ہے کہ اس روٹ کے بننے سے بھارت یورپ کو بائی پاس کرتے ہوئے براہ راست روس کے ساتھ تجارت کر سکے گا۔
توقع ہے کہ اس نئے تجارتی راستے سےبھارت اور روس کے درمیان سامان کی آمدورفت کا وقت بہت کم ہو جائے گا۔ جاپانی اخبار’’ نِکئی‘‘ کی رپورٹ کے مطابق روس اور ایران کا منصوبہ ہے کہ اس نئے تجارتی راستے سےامریکہ کی سپلائی چین کو اپنے اتحادیوں اور دوستوں تک لے جانے کےمنصوبے کا منہ توڑ جواب دیا جائے۔لہٰذا، اس کے لئے ایران نے اپنے ملک میں 3300 کلومیٹر طویل ریلوے لائن پر تیزی سے کام شروع کر دیا ہے۔ ایک ایرانی اہلکارکے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اس ریلوے لائن کا 560 کلومیٹر حصہ اس سال مارچ تک تیار ہو جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق ان تمام منصوبوں کی تکمیل کے بعد ملک کے ریلوے نیٹ ورک میں 20 فیصد اضافہ ہوگا۔ اسی طرح 6,000 کلومیٹر طویل ہائی وے پر بھی تیزی سے کام جاری ہے۔ اس میں سے 1,000 کلومیٹر اس سال مارچ تک مکمل ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ سال 2022 میں 4 لین والی ہائی وے کھولی گئی تھی، جو بحیرہ کیسپین کو خلیج فارس سے ملاتی ہے۔اس نئے راستے کی موجودگی کی بنا پر ایران ایشیا، روس اور یورپ کے درمیان ٹرانسپورٹ کا مرکز بننے کی امید رکھتا ہے۔ اس سلسلے میںسال 2002 میں ہی بھارت، روس اور ایران نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔اسی معاہدے کے بعد انٹرنیشنل نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اس سے بھارت ایران اور آذربائیجان کے راستے روس سے جڑ جائے گا اور اسے نہر سویز کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ایران اور روس اس تجارتی راستے کی تعمیر کے لیے اربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔ اس راستے کا ابھی سے ہی بہت حد تک استعمال شروع ہو چکا ہے۔ بحیرہ کیسپین میں روس اور ایران کے جہاز دیکھے جا رہے ہیں۔ یوکرین کی جنگ کے درمیان روس اور ایران دونوں ہی مغرب کی طرف سے بہت زیادہ دباؤ میں ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس پورے راستے کو بنانے میں دونوں ممالک 25 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ اس سے قبل گزشتہ سال کے ماہ جولائی میں روسی صدر ولادیمیر پتن نے اپنے ایرانی ہم منصب سے ملاقات کی تھی۔ دونوں رہنماؤں نے شمالی ایران میں راشت استارہ ریل لنک کو مکمل کرنے پر اتفاق کیا۔ اس سڑک کی تعمیر کے بعد روس کا بحر ہند تک سفر آسان ہو جائے گا اور وہ خلیجی اور افریقی ممالک کے ساتھ تیزی سے تجارت کر سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ولادیمیر پتن بذات خود اس راستے پر خصوصی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
واضح ہو کہ بھارت اور روس کے درمیان باہمی تجارت 1,822 ملین امریکی ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ مالی سال 2020-21 میں دونوں ممالک کے درمیان صرف 814 کروڑ ڈالر کی تجارت ہوئی تھی ،جو مالی سال 2021-22 میں بڑھ کر 1,312 کروڑ ہو گئی۔ رواں مالی سال یعنی 2022-23 میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں جو تیزی آئی ہے، اس کی وجہ یوکرین میں جنگ چھڑنے کی وجہ سے روس پر امریکہ اور یورپی ممالک کی پابندیاں ہیں ۔اس کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات یعنی خام تیل روس سے رعایتی شرح پر بھارت کے لینے کی وجہ سے بھی تجارت میں اضافہ ہوا ہے۔ سال 2020 میں روس،بھارت کے تجارتی شراکت دار کے طور پر 25ویں نمبر پر تھا، اب وہ ساتویں نمبر پر آ گیا ہے۔قابل ذکر ہے کہ امریکہ، چین، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، عراق اور انڈونیشیا اب بھی بھارت کے تجارتی شراکت داروں کے طور پر روس سے اوپر ہیں۔ کووڈ۔19 کے آغاز سے پہلے، بھارت روس سے اپنی خام تیل کی ضرورت کا صرف دو فیصد خریدتا تھا، اب وہ تقریباً 23 فیصد خرید رہا ہے۔ اگرچہ دوطرفہ تجارت میں بے پناہ اضافے سے دونوں ممالک مستفید ہو رہے ہیں ۔توقع ہے کہ آنے والے دنوں میں دونوں ملکوں کے درمیان باہمی استفادے کا گراف مزید اوپر اٹھے گا اور دونوں کی دوستی پہلے سے زیادہ مستحکم ہوگی۔
**********************