Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 23rd Jan.
اتر پردیش کی سیاست میںان دنوں جوڑ، گھٹاؤ، ضرب، تقسیم کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے لوک سبھا انتخابات 2024 کے لیے اپنی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ 2014 اور 2019 میں ہوئے لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے پیش نظر بی جے پی اپنے ہی رکارڈس کو توڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔وہ اس بار بھی اتر پردیش کے راستے سے دہلی تک پہنچنے کی حکمت عملی پر کام کر رہی ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں میں مایاوتی اس بار سیاسی اور سماجی تانے بانے کا خیال رکھتے ہوئے ریاست کی اہم سیاسی پارٹی ہونےکے دعو ے کے ساتھ اس بار اکیلے ہی انتخابی میدان میں اتر نے کے لئے اپنے پروں کو تول رہی ہیں۔ ان سب کے درمیان اکھلیش یادو کی سیاست کا رخ کسی اور جانب ہے۔کبھی وہ بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار، مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی اور تلنگانہ کے وزیر اعلی کے چندر شیکھر راؤ کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں تو کبھی اتر پردیش میں سیٹ مانگنے پر وہ اتراکھنڈ اور مدھیہ پردیش کے انتخابات میں سیٹ مانگتے نظر آ رہے ہیں۔ اس ضمن میں اکھلیش یادو کے ایک بیان نے تو یوپی کی سیاست میں ہلچل تیز کر دی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ یوپی کی سیاست میں اکھلیش یادو نے 2014 کے بعد سے کسی اتحاد کے بغیر کوئی الیکشن نہیں لڑا ہے۔ 2017 کے اسمبلی انتخابات میں ان کا کانگریس کے ساتھ اتحاد تھا۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میںانھوں نے روایتی حریف بہوجن سماج پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔ اسی وقت، 2022 کے اسمبلی انتخابات میں، ایس پی نے راشٹریہ لوک دل، سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی، مہان دل، اپنا دل کمیروادی جیسی چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرکے انتخابی میدان میں اپنی قسمت آزمائی کی تھی۔ تاہم ان تمام انتخابات میں اکھلیش یادو کو کوئی بڑی کامیابی نہیں مل سکی۔ 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں ایس پی نے اپنے بل بوتے پر الیکشن لڑا تھا۔اس وقت وہ ریاست میں بر سراقتدار بھی تھی۔ اس کے باوجود پارٹی صرف 5 سیٹیں جیت سکی۔ لوک سبھا انتخابات 2019 میں مایاوتی کے ساتھ اتحاد کے بعد ریاست میں بڑی تبدیلی کی امید تھی۔ بڑی بڑی پیشین گوئیاں ہوئی تھیں۔ لیکن تمامتر دعوؤں کے باوجودسماج وادی پارٹی 5 سیٹوں سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ ہاں، اتحاد کا فائدہ بہوجن سماج پارٹی کو ضرور ملا۔ بی ایس پی، جو 2014 کے انتخابات میںصفر پر آؤٹ تھی، 2019 کے انتخابات میں اس 10 سیٹیں جھٹک لیں۔
اب لوک سبھا انتخابات 2024 کی تیاریاں جاری ہیں۔ اس کے لیے اکھلیش یادو ایک مضبوط ساتھی کی تلاش میں ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگار ان کے بیان کو اسی نقطۂ نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ ان دنوں ایس پی صدر اکھلیش یادو بھی سیاسی ملاقاتوں کا مطلب سمجھاتے نظر آ رہے ہیں۔ اکھلیش یادو گزشتہ دنوں تلنگانہ کے دورے پر تھے۔ جی آر ایس سربراہ اور تلنگانہ کے وزیر اعلی کےچندر شیکھر راؤ نے اپنی پارٹی کا پروگرام ترتیب دیا تھا۔ تلنگانہ راشٹرسمیتی کے بھارت راشٹرسمیتی بننے کے بعد انہوں نے یہ پروگرام قومی سیاست میں اپنے پاؤں کو جمانے کے لئےمنعقد کیا تھا۔ اس میں ملک کی تمام اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان کو بلایا گیا تھا۔ اکھلیش یادو بھی پہنچے ہو ئے تھے۔ ایس پی لیڈر جنیشور مشرا کی برسی پر ان کے مجسمہ پر پھول چڑھانے کے بعد اکھلیش یادو نے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے کہا ’’ بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے ملک کے تمام بڑے اپوزیشن لیڈروں سے ملاقات کی ہے۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔ اس ایپیسوڈ میں تلنگانہ کے سی ایم کے چندر شیکھر راؤ بھی کئی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور پارٹیوں کے قائدین سے ملے ہیں ۔ میں بھی ان کی دعوت پر وہاں گیا تھا۔‘‘ اکھلیش یادو نے گفتگو کے دوران اشارے اشارے میں یہ بھی کہہ دیا کہ وہ مل تو سب سے رہے ہیں لیکن وہ کس کے ساتھ جائیں گے ، یہ ابھی فائنل نہیں ہے۔بس اکھلیش یادو کا یہی وہ بیان ہے جس نے تیسرے محاذ کے خواب و خیال کو زیرو زبر کر کے رکھ دیا ہے۔
واضح ہو کہ سال 2017 میںیوپی کے اسمبلی انتخابات میں راہل گاندھی اور اکھلیش یادو کی جوڑی ایک ساتھ میدان میں اترچکی ہے۔ اگرچہ ان دونوں کو کوئی بڑی کامیابی نہیں مل سکی تھی، لیکن پچھلے 6 سالوں میں گنگا کا بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ اکھلیش یادو ماضی میں راہل گاندھی کی ’’بھارت جوڑو یاترا ‘‘کی تعریف کر چکے ہیں۔ بھلے ہی وہ یاترا میں شامل نہیں ہوئے تھے ،لیکن اپنی نیک خواہشات کا اظہار انھوں نےدل کھول کر کیا تھا۔ ایسے میں اگر اکھلیش تیسرے محاذ کو چھوڑ کر اہم اپوزیشن اتحاد کے ساتھ چلے جاتے ہیں تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی۔ اوراگر ایسا ہوتا ہے تو تیسرے محاذ کا تانا بانا قبل از وقت بکھرنا طے ہے۔
***********************