Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 30th Jan.
تمل ناڈو کے کنیا کماری سے 7ستمبر کو شروع ہوئی کانگریس کی’’’ بھارت جوڑو یاترا ‘‘ کل 30 جنوری کو اپنے معینہ پروگرام کے مطابق اختتام پذیر ہو گئی۔ ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ کی اختتامی تقریب سری نگر میں منعقد ہوئی۔اس سے ایک دن قبل اتوار کو راہل گاندھی نے سری نگر تاریخی کلاک ٹاور لال چوک پر قومی پرچم ترنگا لہرایا۔اس دن یاترا کے آخری دن میں داخل ہوئی تھی۔ دوسری جانب راہل گاندھی نے کل سری نگر میں کانگریس ہیڈکوارٹر پر ترنگا لہرایا۔ساتھ ہی شیر کشمیر اسٹیڈیم میں راہل گاندھی کی قیادت میں ایک ریلی منعقد ہوئی۔ ریلی میںدیگر کئی ہم خیال جماعتوں نے بھی شرکت کی۔
کانگریس نے 21 بڑی غیر این ڈی اے سیاسی جماعتوں کو یاترا کی اختتامی تقریب میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ ان میں سے 12 سیاسی جماعتیں اس میں شامل ہو رہی ہیں۔ راہل گاندھی کی کال پر سری نگر پہنچنے والے اپوزیشن جماعتوں کے قائدین میں ڈی ایم کے، این سی پی، آر جے ڈی، جے ڈی یو، شیوسینا، سی پی آئی ایم، سی پی آئی (وی سی کے)، ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا، کیرالہ کانگریس، نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور جے ایم ایم شامل ہیں۔ اتنی ساری سیاسی جماعتوں نے تقریب میں اپنی شرکت درج کراکر یہ ثابت کر دیا کہ وہ کانگریس کے ساتھ 2024 کے لوک سبھا انتخابات کی تیاری کے معاملے میں پوری طرح سے سنجیدہ ہیں۔لیکن مدعو سیاسی جماعتوں میں سے 9 جماعتوں نے شرکت نہیں کر کے یہ جتا دیا کہ بہت حد تک بی جے پی سے الگ نہیں ہیں۔
راہل گاندھی نے سری نگر کے لال چوک پر جھنڈا پھہرانے کے بعد ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ یہ ان کی زندگی کا سب سے خوبصورت اور گہرا تجربہ رہا ہے۔ یاترا کے دوران میں نے لاکھوں لوگوں سے ملاقاتیں کیں، ان سے باتیں کیں، میرے پاس سمجھانے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ یاترا کا مقصد ہندوستان کو متحد کرنا تھا، یہ ملک بھر میں پھیلائی جا رہی نفرت اور تشدد کے خلاف تھی۔پوری یاترا کے دوران لوگوں کا بہت پیار ملا۔واقعی کسی کو بھی اتنے پیار بھرے رسپانس کی توقع نہیں تھی۔
اِدھر کل 150 دنوں میں 12 ریاستوں سے گزری اور 3570 کلو میٹر کی مسافت طے کرنے والی ، راہل گاندھی کی اس یاترا کے کے سلسلے میں سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ یاترا ان ریاستوں سے نہیں گزری ، جہاں نومبر۔دسمبر، 2022 میں اسمبلی انتخابات ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ راہل گاندھی کی یاترا بہار، جھارکھنڈ جیسی ریاستوں سے بھی نہیں گزری، جب کہ کانگریس ان ریاستوں میں حکومت کا حصہ ہے۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ یاترا راہول گاندھی کو دوبارہ لانچ کرنے کے لئے شروع کی گئی تھی تاکہ 2024 میں انہیں دوبارہ نریندر مودی کے سامنے میدان میں اتارا جائے۔اسی مقصد کے تحت’’ بھارت جوڑو یاترا ‘‘کے اختتامی دن کانگریس نے ملک کی 22 مودی مخالف سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کی تھی۔ کانگریس کی جانب سے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار، مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کو مدعو کیا گیا تھا۔ سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو، بی ایس پی سربراہ مایاوتی، شیوسینا سربراہ ادھو ٹھاکرے اور دیگر بڑے لیڈروں کو کشمیر کے دورے کی دعوت دی گئی تھی۔ لیکن بڑی سیاسی شخصیات نے کانگریس کی اس دعوت پر لبیک نہیں کہا۔ بہوجن سماج پارٹی کے ایک لیڈر وہاں پہنچے بھی تھے لیکن انہوں نے بھی صاف صاف یہ کہہ دیا کہ اسٹیج پر آنا ان کا اپنا فیصلہ ہے۔سیاسی ماہرین یہ مانتے ہیں کہ ممتا بنرجی کی پہلی خواہش مرکز کی سیاست میں کانگریس کی جگہ لینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نتیش کمار کی طرف سے اپوزیشن اتحاد کے لیے کی جا رہی کوششوں کے بعد کہا گیا تھا کہ ’’کل کی بات ہے، آج نیا دور ہے۔‘‘
یہاں 2024 میں مرکز میں بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی بات کرنے والے ، بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار بھی اپوزیشن کو متحد کرنے کی مہم جلد ہی تیز کرنے والے ہیں۔ ساتھ ہی وہ عظیم اتحاد کے استحکام پر بھی نظر رکھےہوئے ہیں۔ ان کو اس بات کا احساس ہے کہ بی جے پی ان کے اتحاد کو توڑنے کی سازش کر رہی ہے۔نتیش کمار بار بار یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ پی ایم بننے کی خواہش نہیں رکھتے ہیں۔ ایسے میں اب سب سے بڑی سیاسی جماعت کانگریس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تمام بی جے پی مخالف جماعتوں کو متحد کرنے کی کوشش اپنی سطح سےکرے۔ تلنگانہ کے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ ، سماجوادی پارٹی لیڈر اکھلیش یادو، دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال، وزیر اعلیٰ بہار نتیش کمار اور مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کو کانگریس ایک پلیٹ فارم پر لانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ملک میں بی جے پی کا ایک مضبوط متبادل تیار ہو سکتا ہے۔بعض سیاسی مبصرین کو یہ امید ہے کہ کانگریس یہ کام ضرور کرے گی۔راہل گاندھی بھی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ کے بعد کانگریس کا اصلی سفر شروع ہوگا۔ سری نگر کے’’شیر کشمیر اسٹیڈیم ‘‘ بھی کل اس بات کا گواہ بنا کہ کانگریس اب اپنے پورے فارم میں آچکی ہے۔
****************************