Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 7th Feb
بہار کی سیاست میں جے ڈی یو کے باغی لیڈر اوپیندر کشواہا کے تیورنےہلچل پیدا کر دی ہے۔ بغاوت کا جھنڈا بلند کرنے کے بعدوہ ہر روز کوئی نہ کوئی مسئلہ اٹھاتے رہتے ہیں۔اس بیچ انھوں نے19 اور 20 فروری کو پارٹی کے لیڈروں اور کارکنوں کی میٹنگ بلا کر ایک نئی مورچہ بندی کا اعلان کر دیا ہے۔گرچہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اوپیندر کشواہا کے بارے میں کچھ بھی بولنے سے انکار کر دیا۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنی پارٹی کے رہنماؤں کوبولنے سے روک دیا ہے، لیکن جب سے اوپیندر کشواہا نے 19-20 فروری کو پارٹی کی متوازی میٹنگ کا اعلان کیا ہے، تب سےجے ڈی یو کےکچھ لیڈراوپیندر کشواہا کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔خود وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو بھی بولنا پڑ گیا ہے۔انھوں نے ایک بار پھر کہا ہے کہ انہیں تیسری بار پارٹی میں لائے ہیں ، اب دیکھئے وہ کیسی کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ مل بیٹھ کر بات بھی نہیں کرتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے اس بیان کے تناظر میں یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اکیلے ا وپیندر کشوا سے جے ڈی یو اعلیٰ کمان کتنا پریشان ہیں۔
ادھرجے ڈی یو کے بہار ریاستی صدر امیش کشواہا کا کہنا ہے کہ پارٹی کشواہا کی میٹنگ پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اگر پارٹی کا کوئی رہنما یا کارکن ان کے اجلاس میں شریک ہوا تو پارٹی اس کے خلاف کارروائی کرے گی۔ پارٹی کےقومی صدر للن سنگھ بھی اوپیندر کشواہا سے بہت ناراض ہیںوہ کہتے ہیں کہ اپیندر کشواہا فی الحال جے ڈی یو میں کسی عہدے پر فائز نہیں ہیں وہ صرف ایک ایم ایل سی ہیں۔ کشواہا اب پارٹی کے پارلیمانی بورڈ کے چیئرمین بھی نہیں ہیں۔ کشواہا جو کچھ کہہ رہے ہیں یا جو کچھ کر رہے ہیں، دونوں متضاد ہیں۔ ایک طرف کشواہا کبھی کہتے ہیں کہ پارٹی کمزور ہو گئی ہے،وہ اسے مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف وہ پارٹی کے لیڈروں اور کارکنوں کی متوازی میٹنگ کرنے جا رہے ہیں۔ ایسا کرکے وہ پارٹی کو فائدہ نہیں پہنچا رہے ہیں بلکہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جے ڈی یو کے مذکورہ تین سینئر لیڈروں کے بیان سے صاف ہے کہ کشواہا کو لے کر پارٹی میں بے چینی بڑھ گئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ لو کش کے سیاسی تانے بانے کی بنیاد پراوپیندر کشواہا خود کو مضبوط ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالانکہ سیاست کے میدان میں انھیں کبھی بھی لو کش والے تانے بانے کا فائدہ نہیں ملا ہے۔کہا جاتا ہے کہ بہار میں یادؤں کے بعد لو کش یعنی کوئیری اور کرمی برادری کو دوسرا سب سے بڑا ووٹ بینک سمجھا جاتا ہے۔ لو کش کے درمیان سیاسی تانے بانے کا بیانیہ نتیش کمار کی جانب سے 1994 میں سامنے آیا تھا۔ تاہم، اس مساوات کی مدد سے بہار میں کسی کا بھی وزیراعلیٰ بننا ممکن نہیں ہے۔ اسی لیے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے آگے بڑھ کر ایک نئے سرے سے سیاسی تانے بانے کو ٹھیک کرنے کی ضرورت پیش آئی تھی۔ اور اب جب کہ نتیش کمار نے آر جے ڈی کے ساتھ سیاسی رشتہ قائم کیا ہے، ایسے میں انہیں اب صرف اندرونی کشمکش سے پارٹی کو محفوط رکھنے کا چیلنج ہے۔
جے ڈی یو کو ابھی جس صورتحال کا سامنا ہے ، اس کے مد نظر سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ اگر اپیندر کشواہا پارٹی کے لو کش تانے بانے کو توڑنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو نتیش کمار سیاسی طور پر تھوڑی دیر کے لئے متاثر ہو سکتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اتنا کچھ ہو جانے کے باوجود پارٹی ابھی تک اپیندر کشواہا کو باہر کا راستہ نہیں دکھا پا رہی ہے۔
اِدھر نتیش کمار بھی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ جے ڈی یو نے اوپیندر کشواہا کو دعوت دے کر با وقار ڈھنگ سے پارٹی میں شامل کیا۔ انہیں پارٹی میں عہدہ دیا۔ ایم ایل سی بنایا۔ پارٹی کے قومی صدر للن سنگھ بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ پارٹی نے کشواہا کو بہت عزت دی ہے، لیکن وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ للن سنگھ کے مطابق اوپیندر کشواہا خود جے ڈی یو پارلیمانی بورڈ کے صدر کے عہدے سے ہٹ گئے ہیں۔ ان کے بعد پارلیمانی بورڈ سرے سے تشکیل نہیں پایا ہے۔ مرکزی عہدیداروں کی فہرست بھی تاحال جاری نہیں کی گئی۔ اوپیندر کشواہا فی الحال جے ڈی یو کے واحد ایم ایل سی ہیں۔ پارٹی کے قومی صدر للن سنگھ کے بیان سے صاف صاف یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ پارٹی اوپندر کشواہا کو سائیڈ لائن کرنا چاہتی ہے۔اوپندر کشواہا بھی اس بات کو نہیں سمجھ رہے ہیں۔لیکن وہ خود سے پارٹی سے الگ نہیں ہونا چاہتے ہیں۔ وہ آخر آخر تک پارٹی میں رہ کر اپنی ظاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں۔انھوںنے اسی لئے 20۔19فروری کو پارٹی کی متوزی میٹنگ بلائی ہے۔یہ اِس پار اور اُس پار والی لڑائی ہے۔ ان کی میٹنگ میں پارٹی لیڈروں اور کارکنوں کی شامل ہونے والی تعداد ہی بتائے گی کہ وہ اب کتنے پانی میں ہیں۔ بیشتر مبصرین کا ماننا ہے کہ اس لڑائی میں اوپندر کشواہا کی شکست ہونے والی ہے ، لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے رویہ سے جے ڈی یو میں ہلچل پیدا کردی ہے۔
************************