Pin-Up Казино

Не менее важно и то, что доступны десятки разработчиков онлайн-слотов и игр для казино. Игроки могут особенно найти свои любимые слоты, просматривая выбор и изучая своих любимых разработчиков. В настоящее время в Pin-Up Казино доступно множество чрезвычайно популярных видеослотов и игр казино.

اداریہ

بے اعتدالی کسی بھی سطح پر نقصان پہنچا سکتی ہے

Written by Taasir Newspaper

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 24th March

گجرات کے سورت شہر کی ایک عدالت نے جمعرات کو کانگریس لیڈر راہل گاندھی کو مجرمانہ ہتک عزت کے مقدمے میں 2 سال قید کی سزا سنائی ہے۔ تاہم ان کی سزا کو ایک ماہ کے لیے روک دیا گیا ہے۔ لہٰذا، اب وہ فی الحال جیل نہیں جائیں گے، لیکن اس سزا کی بنیاد پر کل بروز جمعہ تقریباََ 2.30 بجے لوک سبھا سکریٹریٹ کے ذریعہ راہل گاندھی کی لوک سبھا رکنیت کو مسترد کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ قانون کے مطابق 2 سال یا اس سے زیادہ سزا ہونے پر عوامی نمائندے کی رکنیت چلی جاتی ہے۔ اس قانون کے تحت کئی ایم ایل ایز اور ملک کے کئی ممبران پارلیمنٹ کی رکنیت چلی گئی ہے۔اس صورتحال کے ساتھ ہی ایک سوال اور ہوا میں گشت کر رہا ہے کہ عدالت کے اس فیصلے کے کیا سیاسی اثرات مرتب ہوں گے؟ کیونکہ پچھلے ریکارڈ کے مطابق ایسے بہت سے مواقع آئے ہیں، جب سزا ہونے یا رکنیت ختم ہونے کے بعد بھی سیاسی جماعتوں یا ان کے قائدین کی سیاست پرکوئی خاص اثر نہیں دیکھا گیا۔حالانکہ اس معاملے پر بی جے پی کی ترجمان اپراجیتا سارنگی کا کہنا ہے کہ’’ ہمیں کانگریس سے ہمدردی ہے۔ بی جے پی کو کسی قسم کا خوف اور ڈر نہیں ہے۔ کانگریس خودکشی کے راستے پر چل رہی ہے۔ ان کے قائدین خود کا جائزہ نہیں لے رہے ہیں۔ کانگریس پارٹی کو عوام کی حمایت نہیں ملے گی۔‘‘ جبکہ کانگریس کے ترجمان اجوئے کمار کا ماننا ہے کہ مودی اور ان کی پارٹی بی جے پی ہندوستان نہیں ہے۔ ہمیں عوام کی حمایت حاصل رہے گی۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ راہل گاندھی کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ پرانشو مودی نام کے ایک وکیل نے دائر کیا تھا، پرانشو مودی سورت ویسٹ سے بی جے پی ایم ایل اے بھی ہیں۔ انہوں نے 2019 میں دائر اپنی شکایت میں کہا تھا کہ راہل نے اپنے بیان سے کروڑوں لوگوں کی توہین کی ہے۔ راہل کے وکیل کرت پران والا نے اس بنیاد پر ہلکی سزا دینے کی استدعا کی تھی ،لیکن سزا کا اعلان کرتے ہوئے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ ہریش ہس مکھ ورما نے استغاثہ کی دلیل کی تائید کرتے ہوئے کہا ’’ اگر کانگریس لیڈر کو کم سزا دی جاتی ہے، تو اس سے عوام میں غلط پیغام جائے گا اور ہتک عزت قانون کا مقصد ختم ہو جائے گا۔‘‘ عدالت نے راہل گاندھی کے خلاف2019 میں سپریم کورٹ کی طرف سے شروع کی گئی مجرمانہ توہین کی کارروائی کا بھی حوالہ دیا ،جو راہل گاندھی کے’’چوکیدار چور ہے‘‘کے ریمارک سے متعلق تھی ۔ مجسٹریٹ نے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے غیر مشروط معافی مانگنے کے بعد راہل گاندھی کو مستقبل میں’’محتاط ‘‘ رہنے کے لئے مشورہ دیا تھا، لیکن ان کے طرز عمل میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی ہے۔ معاملے کی سماعت کے دوران استغاثہ کا کہنا تھا کہ ملزم پارلیمنٹیرین ہے۔ ہلکی سزا دینے سے معاشرے میں غلط پیغام جائے گا۔
قابل ذکر ہے کہ عدالت کے ذریعہ جس مقدمے میں سزا سنائی گئی ہے ، اس کا تعلق اس متنازعہ بیان سے ہے، جب 2019 کی انتخابی مہم کے دوران راہل گاندھی نے کرناٹک کے کولار میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ’’مودی‘‘ کنیت کے حوالے سےیہ سوال کھڑا کیا تھا کہ سب چوروں کی کنیت مودی کیوں ہے؟ یہ الگ بات ہے کہ عدالت نے سزا کے نفاذ کو ایک ماہ تک معطل رکھتے ہوئے راہل گاندھی کو ضمانت دے دی ہے، لیکن اوپری عدالت نے اگر نچلی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا تو ریپریزنٹیشن آف دی پیپلز ایکٹ 1951کی دفعہ 8 (3) کے تحت حتمی طور پر ان کی رکنیت کا جانا طے مانا جا رہا ہے۔ دی گئی سزا کے لحاظ سے ان کےالیکشن لڑنے پر بھی پابندی عائد ہو سکتی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ قانونی ماہرین نے راہل کو مشورہ دیا ہے کہ وہ عدالت کے فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل کریں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قانون کے مطابق جیسے ہی پارلیمنٹ یا ریاستی مقننہ کا کوئی رکن کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے اور اسے دو سال یا اس سے زیادہ مدت کی سزا ہوتی ہے تو اس رکن کو ایوان کی رکنیت سے نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ انہیں الیکشن لڑنے سے بھی روکا جا سکتا ہے۔ ایسے میں اگر ہائی کورٹ ڈسٹرکٹ کورٹ کے فیصلے کو نہیں پلٹا تو راہل کی پارلیمنٹ کی رکنیت ختم ہو سکتی ہے۔کانگریس کو بھی اس بات کا اندیشہ ہے۔حالانکہ کانگریس کے کئی لیڈروںکا دعویٰ ہے کہ جس طرح اندرا گاندھی، 1978 میں سزا سنائے جانے کے بعد 1980 میں پوری مضبوطی کے ساتھ واپس آئی تھیں، ٹھیک اسی طرح راہل گاندھی بھی واپس آئیںگے۔ عام طور پر یہ بھی دیکھا جاتا رہا ہے کہ شوہر یا والد کی رکنیت ختم ہونے کے بعد، صرف ان کے خاندان کے افراد ہی اسی نشست سے واپس آئے ہیں۔ گجرات کانگریس کے امیت چاوڑا کا کہنا ہے کہ’’ ہم کانگریسی ہیں، نہ پہلے جھکتے تھے اور نہ اب جھکیں گے۔ سچ کو ہراساں کیا جا سکتا ہے لیکن شکست نہیں دی جا سکتی۔ سچ ہمیشہ جدوجہد کا انتخاب کرتا ہے۔‘‘
مذکورہ صورتحال میں پورے دعوے کے ساتھ ایسا کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اوپری عدالت میں نچلی عدالت کے اس فیصلے کے ساتھ کیا سلوک ہوگا یا کانگریس بالخصوص راہل گاندھی کی سیاسی زندگی پر اس کے کیا اثرات مرتب ہون گے ، لیکن اس فیصلےنے یہ واضح ضرور کر دیا ہے کہ اپنے سیاسی سفر میں اپوزیشن کو پھونک پھونک کر قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔بے اعتدالی کسی بھی سطح پر نقصان پہنچا سکتی ہے۔
*************************

About the author

Taasir Newspaper