Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 19th March
اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اور ایم پی اسدالدین اویسی کو بہار میں بنیادی طور پر اقلیتی ووٹوں پر بھروسہ ہے۔یہ وہ ووٹ ہیں، جن پر کافی دنوں تک آر جے ڈی کا قبضہ تھا۔آر جے ڈی کو بھی معلوم ہے کہ بہار میں مسلم کمیونٹی کے کچھ لوگ اے آئی ایم آئی ایم کے ساتھ ہیں۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ 2020 کے اسمبلی انتخابات میں 19 مسلمانوں کو کامیابی ملی تھی۔جے ڈی یو کا ایک بھی مسلم ایم ایل اے نہیں جیت سکا تھا۔ اے آئی ایم آئی ایم کے پانچ ایم ایل اے کامیاب ہوئے تھے ۔ تاہم بعد میں آر جے ڈی نے ان میں سے چار کو اپنی پارٹی کا حصہ بنا لیا۔آر جے ڈی نے 2020 میں 17 مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا۔ جس میں آٹھ جیتنے میں کامیاب رہے۔ 2015 کے انتخابات میں آر جے ڈی کے 11 مسلم ایم ایل اے الکشن جیتنے میں کامیاب ر ہے تھے۔ 2020 میں یہ تعداد کم ہوگئی تھی۔ اس کی سیدھی وجہ اے آئی ایم آئی ایم کی مداخلت تھی۔
بہار میں اویسی کی سیاست ابھی بے لاگ و لپٹ چل رہی ہے۔ 2020 کے انتخابات میں اس نے آر جے ڈی سے تال میل بٹھانے کی کوشش کی تھی۔لیکن اس بار تال میل کے بجائے آر جے ڈی سے انتقام لینے کی بات چل رہی ہے۔ پارٹی سربراہ اسدالدین اویسی اس بار بھی اکیلے الکشن لڑنا چاہتے ہیں۔ اسدالدین اویسی نے اپنے سیمانچل دورے کے دوران یہ واضح اشارہ دیا ہے کہ انھیں کسی پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔
قابل ذکر ہے کہ گوپال گنج اسمبلی سیٹ کے ضمنی انتخاب میں اے آئی ایم آئی ایم کے امیدوار کی وجہ سے ووٹوں کی تقسیم کو حکمراں عظیم اتحاد (جس میں آر جے ڈی، وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی جے ڈی یو، کانگریس اور بائیں بازو شامل ہیں) کے امیدوارکی شکست کی وجہ قرار دیا گیا تھا۔تاہم، اس معاملے میں عظیم اتحاد کے رہنماؤں کے تبصروں کے جواب میں، اویسی کا کہنا ہے کہ آر جے ڈی سپریمو لالو پرساد اپنے سالے کو کیوں نہیں روک سکے تھے۔عظیم اتحاد کے لوگ ہمیں ہی قربانی کا بکرا کیوں بنانا چاہتے ہیں ؟ اسدالدین اویسی کا کہنا ہے کہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ہم نے بہار کی صرف کشن گنج سیٹ سے الیکشن لڑا تھا۔ حالانکہ ہمیں تین لاکھ سے زیادہ ووٹ ملے، لیکن یہ سیٹ کانگریس کے حصے میں گئی۔ ہم نے ملک بھر میں لوک سبھا کی صرف تین سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا۔ بی جے پی کو 300 سے زیادہ سیٹیں ملیں۔ اس کے لیے ہم پر الزام لگانا مضحکہ خیز ہے۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ گوپال گنج اسمبلی سیٹ کے ضمنی انتخاب میں، آر جے ڈی نے بی جے پی سے بہتر مقابلہ کیا اور اس کا امیدوار 2000 ووٹوں سے کم فرق سے ہار گیا۔ اس ضمنی انتخاب میں اے آئی ایم آئی ایم کے امیدوار 12000 سے زیادہ ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔ اسدالدین اویسی کہتے ہیں کہ گوپال گنج اسمبلی سیٹ کے ضمنی انتخاب میں آر جے ڈی صدر لالو پرساد کی بیوی اور سابق وزیر اعلیٰ رابڑی دیوی کے بھائی سادھو یادو کی بیوی اور مایاوتی کی بی ایس پی امیدوار اندرا یادو کو آٹھ ہزار سے زیادہ ووٹ ملے۔کیا وہاں سے بی جے پی کی جیت میں ان کا بالواسطہ تعاون شامل نہیں ہے ؟
ان دنوں اسدالدین اویسی کی تقریر اپنے ان چار ایم ایل ایز کے ذکر سے خالی نہیں رہتی ہے، جنھوں نے 2020 میں اے آئی ایم آئی ایم کے ٹکٹ پر الکشن جیتنے کے بعد آر جے ڈی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ان کا الزام ہے کہ ہمارے ایم ایل ایز کو خریدا گیا ۔ قابل ذکر ہے کہ اسدالدین اویسی کی پارٹی میں یہ ٹوٹ پھوٹ اس وقت ہوئی تھی جب نتیش کمار این ڈی اے کا حصہ تھے اور آر جے ڈی اپوزیشن میں تھی۔ اسدالدین اویسی کا یہ بھی کہنا ہے کہ کچھ لوگ ہمیں صرف مسلمانوں کی پارٹی کہتے ہیں، لیکن ایسا کہنے والے خود کبھی ذات پات سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں۔ اسدالدین اویسی اپنی تقریروں میں یہ بھی کہہ رہے کہ میرا مقصد سیمانچل کو ترقی دینا ہے۔اپنے کارکنان کی ایک میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کل کہا تھا ’’ہم یہاں الیکشن جیتنے نہیں آئے ہیں، بلکہ میرا مقصد سیمانچل کی ترقی ہے۔ یہاں کے مسلمانوں کی ترقی کے لئے کام کرنا ہے جو ابھی تک پسماندگی کے شکار ہیں۔ جب یہاں بارش کا موسم شروع ہوتا ہے تو پورے برسات کے دوران یہاں کے لوگوں کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس صورتحال کو دیکھنے والا کوئی نہیں ہے۔ یہاں کے لوگ سیلاب سے پریشان ہیں۔ آج گنگا پر دو سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر ایک پل بنایا جا رہا ہے۔ لیکن آج بھی سیمانچل میں سیلاب کو روکنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔
گرچہ حیدرآباد کے ایم پی اور اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسدالدین اویسی کی باتوں میں صداقت ہے، لیکن ان میں جذباتیت کا عنصر بھی نسبتاََزیادہ ہے۔ ایسے میں اس بار سیمانچل کےووٹرز ان کے جذبات کی رو میں کتنی دور ان کے ساتھ بہیں گے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔سیمانچل کی زمین بتاتی ہے کہ وہاں کے ووٹرز غریب اور پس ماندہ ضرور ہیں لیکن ان میں سیاسی شعور کی کمی نہیں ہے۔ ان کا ایک ایک ووٹ ان کے سیاسی شعور کی بالیدگی کا ثبوت پیش کرے گا۔
******************