افغانستان میں یونیورسٹیاں دوبارہ کھل گئیں، لیکن خواتین پر تاحال پابندی

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 6th March

کابل،6مارچ:موسم سرما کی تعطیلات کے بعد افغان یونیورسٹیاں دوبارہ کھلنے کے بعد پیر کو مرد طلباء اپنی کلاسوں میں واپس چلے گئے، لیکن طالبان حکام کی جانب سے خواتین پر پابندی عائد ہے۔اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے خواتین پر کئی پابندیاں عائد کی گئی ہیں، اور اس صورتحال نے پوری مسلم دنیا سمیت عالمی سطح پر غم و غصے کو جنم دیا ہے۔وسطی صوبے غور سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ راحیلہ بھی اپنی تعلیم ادھوری رہ جانے پر پریشان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “مردوں کو یونیورسٹی جاتے دیکھنا دل دہلا دینے والا ہے جب کہ ہمیں گھر میں رہنا پڑتا ہے۔”یہ لڑکیوں کے ساتھ صنفی امتیاز ہے۔ چونکہ اسلام ہمیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ہمیں سیکھنے سے کسی کو نہیں روکنا چاہیے۔‘‘طالبان حکومت نے یہ پابندی خواتین طالبات پر لباس کے سخت ضابطوں کو نظر انداز کرنے اور کیمپس میں آنے، جانے کے لیے مرد رشتہ دار کے ساتھ جانے کی شرط کی خلاف ورزی کے بعد لگائی۔زیادہ تر یونیورسٹیوں نے پہلے ہی صنفی طور پر الگ الگ داخلے اور کلاس رومز متعارف کرائے تھے اور صرف خواتین پروفیسرز یا بوڑھے مردوں کو خواتین کو پڑھانے کی اجازت دی گئی تھی۔کئی طالبان حکام کا کہنا ہے کہ خواتین کی تعلیم پر پابندی عارضی ہے، لیکن وعدوں کے باوجود وہ لڑکیوں کے لیے سیکنڈری اسکول دوبارہ کھولنے میں ناکام رہے ہیں، جو فنڈز کی کمی سے لے کر نصاب کو اسلامی خطوط پر دوبارہ ترتیب دینے کے لیے درکار وقت تک جیسی وجوہات کی بنا پر ایک سال سے بند ہیں۔کچھ طالبان حکام کے مطابق ملک کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کے انتہائی قدامت پسند مشیر خواتین کی جدید تعلیم کے بارے میں گہرے شکوک وشبہات رکھتے ہیں۔اقتدار سنبھالنے کے بعد سے طالبان حکام نے خواتین کو عوامی زندگی سے باہر کر دیا ہے۔ انہیں کئی سرکاری ملازمتوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ اور بعض جگہ ان کی سابقہ تنخواہ میں کمی کر دی گئی ہے تاکہ وہ گھر بیٹھ جائیں۔انہیں پارکوں، میلوں، اور جم میں جانے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ عوامی مقامات پر پردہ لازمی قرار دیا گیا ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان پابندیوں کی مذمت کی ہے۔ اقوام متحدہ نے اسے “صنفی بنیادوں پر نسل پرستی” قرار دیا ہے۔دوسری جانب بین الاقوامی برادری نے خواتین کی تعلیم کے حق کو طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے اور امداد سے مشروط کرتے ہوئے مذاکرات کا ایک اہم نکتہ بنایا ہے۔واضح رہے کہ اب تک کسی ملک نے طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔